اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف شوکاز نوٹس واپس لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے دس رکنی فل کورٹ نے سماعت مکمل ہونے پر آج محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی سے روک دیا۔
سپریم کورٹ کے فل بنچ کے 7 ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھجنے کا فیصلہ دیا، ان جج صاحبان میں بینچ کے سربراہ جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس منظور ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین احمد شامل ہیں جب کہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس منصورعلی شاہ نے فیصلے کے ساتھ اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں پر ٹیکس کے معاملہ کا جائزہ متعلقہ فورم پر لیا جائے، ایف بی آر جج کی اہلیہ کو 7 دن کے اندر نوٹس سرکاری رہائش گاہ پرارسال کیے جائیں، ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے۔چیئرمین ایف بی آر اپنے دستخطوں کے ساتھ رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں گے۔
عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا، قانون کے مطابق کوئی کارروائی بنتی تو جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی مجاز ہوگی۔
فل کورٹ بینچ جب فیصلہ سنانے کے لئے کورٹ روم پہنچا تو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے، تاہم حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل آفس کا سٹاف وہاں موجود رہا۔
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کی کارروائی
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کی، وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جج کی اہلیہ کی ٹیکس دستاویز سر بمہر لفافے میں جمع کرائی جب کہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک نے منی ٹریل سے متعلق دستاویز، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول جمع کرائیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی حکم جاری کرے گی، معزز جج کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، حکومت اس کی تصدیق کروا لے، درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ افتخارچوھدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، سمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟ کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت ایف بی آر کے پاس جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے، سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی،سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے،جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ شو کاز نوٹس کے بعدجوڈیشل کونسل کو آئینی تحفظ کا سوال بہت اہم ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجسنی بنانے کا اختیار نہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی جو نہیں کی گئی، جب کہ اس کے ٹی او آرز بھی قانون کیخلاف ہیں، باضابطہ قانون سازی کے بغیراثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ لندن جائیدادوں کی تلاش کیلئے 192 ڈاٹ کام کو استعمال کرنے کا کہا گیا اس ویب سائٹ پر کسی بھی چیز کو تلاش کرنے کے لئے رقم ادا کرنا پڑتی ہے اور ادائیگی کی رسید متعلقہ بندے کو بھجوائی جاتی ہے، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جج کے اہلخانہ کی جائیدادیں کس نے تلاش کیں۔
وحید ڈوگر نے ایک جائیداد کا بتایا تھا، اگرتفصیلات اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے تلاش کیں تو رسیدیں دے، حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پرایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججزکے خلاف لیتے، فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹاناچاھتی ہے، عدالت درخو است کو انفردی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے، سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی کا کہنا تھا کہ تاثر دیا گیا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ لیگل فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیراعظم ادارہ بنا سکتے ہیں، وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ قوائد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، نوٹی فیکشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، اے آر یو کے لئے قانون سازی نہیں کی گئی۔
خیبرپختونخوا بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے 20 ھزار وکلا کی نمائندگی کررہا ہوں، اس مقدمے میں 29درخواستیں مختلف بارکونسلز،بارایسوسی ایشنزنے دائر کی ہیں، یہ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے رشتہ دار نہیں، بلکہ عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں، بار کونسل یا بارایسو سی ایشن کا کوئی ذاتی مفاد نہیں، وکلا تنظیموں کا مفاد آئین کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی ہے، یہ بھول جائیں کہ یہ کسی جج کا مقدمہ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی کے کردار پر حملہ قابل قبول نہیں، خالی کاغذ کو ریفرنس بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا گیا، آخر جسٹس قاضی فائز عیسی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔
متعلقہ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ، آین اور قانون کے پابند ہیں، ان شاء اللہ اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کرینگے، ہمیں مشاورت کے لئے وقت چاہیے ہوگا۔ اگر ججز کا اتفاق ہوا تو آج چار بجے فیصلہ سنائیں گے۔
Comments are closed.