دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد ڈوب گئے، 9 جاں بحق

سوات / خیبرپختونخوا: خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام سوات میں موسلادھار بارش کے باعث دریائے سوات بپھر گیا، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد دریا میں بہہ گئے۔ افسوسناک واقعے میں اب تک 9 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 9 دیگر تاحال لاپتا ہیں۔

ریسکیو حکام کے مطابق حادثہ اُس وقت پیش آیا جب ایک خاندان دریا کنارے ناشتہ کر رہا تھا۔ اچانک بارش کے باعث دریا میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی اور ایک تیز ریلے نے لمحوں میں درجنوں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ واقعہ سوات کے 7 مختلف مقامات پر پیش آیا، جہاں خواتین اور بچوں سمیت 75 سے زائد افراد متاثر ہوئے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق صبح 8 بجے حادثے کی اطلاع موصول ہوئی، جس کے بعد فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ تاحال 9 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور 55 سے زائد افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ تاہم 20 سے زائد افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی ہدایات نظر انداز

ڈپٹی کمشنر سوات نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پہلے ہی دفعہ 144 نافذ تھی، جس کے تحت دریا کے قریب جانے اور نہانے پر پابندی تھی۔ تاہم سیاحوں کی جانب سے ان ہدایات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جو جان لیوا حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔

متاثرہ خاندان کا درد بھرا بیان

حادثے کا شکار ایک خاندان کے رکن نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے 10 افراد پانی میں بہہ گئے، جن میں سے صرف ایک خاتون کی لاش ملی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم دریا کنارے چائے پی رہے تھے، بچے قریب جا کر تصویریں لینے لگے، پانی کی سطح معمول پر تھی، مگر چند لمحوں میں تیز ریلہ آیا اور ہمارے بچے بہہ گئے۔”

متاثرہ شخص نے ریسکیو اداروں پر غفلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ٹیمیں جائے وقوعہ پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تاخیر سے پہنچیں، اور یہ المناک واقعہ ان کی موجودگی میں پیش آیا۔ ’’ہماری آنکھوں کے سامنے بچے ڈوب گئے، لیکن کوئی بچانے والا نہ تھا،‘‘ انہوں نے آبدیدہ ہو کر کہا۔

حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ

علاقہ مکینوں اور متاثرہ خاندانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دریائے سوات اور دیگر سیاحتی مقامات پر سیکیورٹی اور ریسکیو انتظامات مزید بہتر بنائے جائیں، اور دفعہ 144 کی سختی سے پابندی کروائی جائے تاکہ آئندہ ایسے المناک سانحات سے بچا جا سکے۔

Comments are closed.