اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 27ویں آئینی ترمیم اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف جمعہ سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، اور تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک “حقیقی جمہوریت” بحال نہیں ہو جاتی۔
احتجاجی تحریک کا اعلان
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران محمود خان اچکزئی کے ہمراہ اپوزیشن اتحاد کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اچکزئی نے کہا کہ جمعہ سے ملک بھر میں احتجاجی جلسے، ریلیاں اور عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی۔ ان کے مطابق تحریک کا مقصد عوام کے ووٹ کے تقدس کی بحالی اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔
مینڈیٹ کی واپسی
اپوزیشن اتحاد کے سربراہ نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر مذاکرات کا ایجنڈا صرف ایک ہوگا — “عوام کا مینڈیٹ واپس کرو”۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ 27ویں ترمیم جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی کوشش ہے اور اس سے پارلیمانی توازن بری طرح متاثر ہوگا۔
آئینی ترمیم کی منظوری
گزشتہ روز قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا، جس کے بعد یہ بل آج سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ یہ ترمیم عوامی نمائندگی کو محدود اور مرکزی حکومت کے اختیارات کو مزید وسیع کرنے کی کوشش ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس ترمیم سے صوبائی خودمختاری پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
عوامی حمایت
اپوزیشن اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ احتجاجی تحریک کو صرف شہروں تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اسے ضلعی اور تحصیلی سطح تک پھیلایا جائے گا۔ مختلف جماعتوں کے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے رابطہ کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن قیادت اگلے ہفتے لاہور اور پشاور میں بڑے جلسوں سے خطاب کرے گی۔
حکومت کا موقف
دوسری جانب حکومتی وزرا نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 27ویں ترمیم آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منظور کی گئی اور اس کا مقصد انتظامی اصلاحات کو مؤثر بنانا ہے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق اپوزیشن کا احتجاج صرف سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔
سیاسی ماہرین کی رائے
سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں مزید اضافہ کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے لچک نہ دکھائی تو سیاسی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.