58 ٹو بی عدالت کے پاس چلا گیا،نیا نیکسس کنٹرولڈ جمہوریت چاہتا ہے، بلاول بھٹو

ہماری غلطی تھی،ہمیں 19 ویں ترمیم نہیں کرنی چاہئے تھی،مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز بیٹھے یا پرویز الہیٰ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ماہ پہلے پارٹی ہیڈ کی ہدایت پرایم پی ایز کو ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے،ایک ماہ بعد عدالت کہہ رہی ہے کہ پارٹی ہیڈ کی ہدایت نہیں مانی جائے گی،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے لئے ایک آئین اورلاڈلے کیلئے ایک آئین ہو،اگر ہم اصلاحات نہیں کر سکتے تو پھر قومی اسمبلی کو تالا لگا دیں:قومی اسمبلی میں خطاب

اسلام آباد : وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ نیا 58 ٹو بی عدالت کے پاس چلا گیا ہے۔ہماری غلطی تھی۔ہمیں 19 ویں ترمیم نہیں کرنی چاہئے تھی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کسی ادارے کو دبائو میں ڈالنے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔صرف یہ گزارش کی تھی کہ فل کورٹ بیٹھ کر فیصلہ سنا دے۔ہم نے کہا تھا فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوا ہم مانیں گے۔یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر نہیں تھا۔سابقہ حکومت نے آئین توڑا میرا تب بھی یہی مطالبہ تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے 1973 کے آئین کو بحال کیا۔18 ویں ترمیم کی صورت میں ہم نے آمروں کی ڈالی ہوئی شقیں نکالیں۔ہم نے 18 ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان سے بھی آمرانہ اقدامات کی طاقت واپس لی۔یہ سب اس لئے کیا پاکستان کی عدالتیں آزاد ہو۔عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔لیکن اس صورتحال میں ایک نیکسس پیدا ہو گیا جو کنٹرولڈ جمہوریت چلانا چاہتا ہے۔افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے نیا 58 ٹو بی عدالت کے پاس چلا گیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارے جیالوں نے افتخار چوہدری کیلئے جدوجہد کی۔افتخار چوہدری آئے روز ہماری حکومت کے خلاف فیصلے دیتے تھے۔ہم نے جوڈیشل ریفارمز کی تھیں۔ہمیں ایک آئینی عدالت بنانی تھی۔آئینی ترمیم کے مطابق آئینی عدالت ایوان نے تشکیل دینی ہے۔فیصلہ کیا تھا اس عمل میں سب کی نمائندگی ہو گی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس وقت کے وزیر قانون کو دھمکی دی گئی۔کہا گیا 19 ویں ترمیم پاس کر کے ہمارے اختیارات ہمیں واپس کرو۔ہماری غلطی تھی ہمیں 19 ویں ترمیم نہیں کرنی چاہئے تھی۔ہمیں کہنا چاہیے تھا۔یہ آئین پاکستان ہے۔آپ نہیں مانتے تو واپس گھر چلے جائیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس وقت کی اپوزیشن شاید اس طرح کے جوڈیشل ایکٹوزم سے خوش تھی۔ایک بار پھر ہم نے دیکھا کہ آئین کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 2018 کے الیکشن میں فیصلوں سے صاف نظر آ رہا تھا کہ ججز انتخابی کیمپین میں حصہ لے رہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ثاقب نثار لاڑکانہ پہنچ کر کبھی جج کو تھپڑ مارتے تھے۔تو کبھی تقاریر کرتے تھے۔ فیصل صالح حیات اپنی نشست جیت چکے تھے۔ایک سلیکٹڈ نظام کو بٹھانے کیلئے ادارے آئینی نہیں متنازعہ کردار ادا کر رہے ہیں۔اداروں کا کردار متنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز بیٹھے یا پرویز الہیٰ۔لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ماہ پہلے پارٹی ہیڈ کی ہدایت پرایم پی ایز کو ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے۔ایک ماہ بعد عدالت کہہ رہی ہے کہ پارٹی ہیڈ کی ہدایت نہیں مانی جائے گی۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں دو آئین چلیں۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے لئے ایک آئین اورلاڈلے کیلئے ایک آئین ہو۔آئین بنانا ان کا کام نہیں ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جوڈیشل ریفارمز نہ ہونے تک پاکستان کا جمہوریت کا سفر مکمل نہیں ہو گا۔سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس پاکستان نہیں۔بلکہ تمام ممبران ہیں۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ کتنے ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں؟۔ججز کے چنائو۔سوموٹو کے اختیار اور اپیل کے طریقہ کار پر ہمیں ریفارمز کرنے پڑیں گے۔

بلاول بھٹو نے استفسار کیا کہ شہباز شریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے۔جو تین ماہ میں سب ٹھیک کر دیں؟۔جو گند ہم صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ چار سال میں جمع ہوا ہے۔ ہم اس گند کو تین مہینے میں صاف نہیں کر سکتے۔اگر ہم اصلاحات نہیں کر سکتے۔تو پھر قومی اسمبلی کو تالا لگا دیں۔ہم اس ایوان سے ہر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ایک پاکستان میں دو نہیں ایک ہی آئین چلے گا۔

Comments are closed.