آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع،عدالتی اعتراضات دورکرنے کیلئے ڈرافٹ تیار

وزیراعظم کا سمری میں باربار غلطیوں پر اظہاربرہمی، ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا عندیہ

اسلام آباد: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق وفاقی حکومت نے عدالتی اعتراضات دور کرنے سے متعلق نیا مسودہ تیار کرلیا۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اہم مشاورتی اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس میں وفاقی کابینہ کے سینیئر ارکان، حکومتی لیگل ٹیم، وزارت قانون کے نمائندے اور پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما بابراعوان، فروغ نسیم اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ بھی شریک تھے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کی آج کی سماعت پر مشاورت کی گئی جب کہ  قانونی ٹیم نے شرکاء کو آج کی سماعت سے متعلق بریفنگ دی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قوانین اور قواعد میں خامیوں اور سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سے متعلق بھی مشاورت کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی اعتراضات دور کرنے سے متعلق ڈرافٹ تیارکرلیا گیا ہے نئے مسودے میں دوبارہ تقرری کے بجائے عدالتی اعتراض کی روشنی میں توسیع کا لفظ شامل کیا گیا۔ وفاقی کابینہ سے سرکولیشن سمری کے ذریعے  ڈرافٹ کی منظوری لیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سمری میں بار بار غلطیوں اور خامیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو اعتراضات عدالت نے اٹھائے تھے سمری کی تیاری کے وقت کیوں نظر انداز کیے گئے، انہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد اس حوالے سے غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان سے سینئیر وزراء نے ان کے آفس میں ملاقات کی جس میں موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سیکیورٹی صورتحال دیکھ کر کی تاہم حکومت پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کو کل تک فیصلہ کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے، عدالت عظمیٰ میں اس حوالے سے کس ک سماعت جمعرات کو صبح ساڑھے 9 بجے ہو گی۔

سپریم کورٹ میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس کیس کا فیصلہ کرے گی، ملک میں ہیجانی کیفیت کا خاتمہ اور ابہام دور ہونا چاہیے، ہمیں پاک فوج کا بہت احترام ہے لیکن پاک فوج کو پتا تو ہو ان کا سربراہ کون ہوگا۔

Comments are closed.