اگر کوئی زبردست جنرل مل گیا تو شاید اس کی مدت 30 سال لکھ دی جائے، چیف جسٹس

اسلام آباد: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے نہایت اہم ریمارکس دیئے گئے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنا کام خود کرے، عدلیہ کا کندھا کیوں استعمال کر رہی ہے، آرمی چیف کا عہدہ پر کرنا ہے تو قواعد و ضوابط کے تحت کیا جانا چاہیے، ایک موقع پر انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق ریمارکس دیئے کہ اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے آغاز پر سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات پندرہ منٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کی کس قاعدے کے تحت ریٹائرمنٹ ہوئی اور جنرل کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، سوال یہ بھی ہے اگر جنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے۔

اپنا کام خودکریں، عدلیہ کا کندھا کیوں استعمال کر رہے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں تو عدالتی کاروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں،اپنا کام خود کریں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں،انہوں نے ہدایت دی کہ سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے۔ صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہوسکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، اس کے ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تین سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔ اس میں تنخواہ اورمراعات کا ذکر نہیں۔

آرمی چیف کا عہدہ پر کرنا ہے تو قواعد و ضوابط کے تحت کیا جانا چاہیے، چیف جٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کا عہدہ آج خالی ہے، آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے، آپ ادھر ادھر گھومتے رہے ہم نے کسی کو ایڈوائس نہیں کرنا، آرمی چیف کا عہدہ آئینی ہے، اس عہدے کو پر کرنا ہے تو قاعدے اورضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے، آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندا نہ پڑھے، اٹارنی جنرل کو مطمئن کرنا ہوگا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف اور درست ہے؟اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے۔

اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، چیف جسٹس

ریمارکس کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، انہوں نے کہا کہ ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، تین سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، کل آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کرسکے۔ یہ بھی طے کر لیا جائے آئندہ توسیع ہو گی یا نئی تعیناتی کی جائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے،اس پر اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہوجائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، تین سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانونی نہیں، عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی۔

جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا، چیف جسٹس

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کےوقت حکومت نےآرٹیکل 243میں پڑھتے ہوئےاس میں اضافہ کردیا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کرقانون بنا کرآئیں، جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویزات کے۔۔۔۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں،اس کے لئے ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی،اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے، آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لئے تعینات کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیرسٹر فروغ نسیم کے وکالت کے لائسنس کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے، ہمارے پاس ریاض راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا، لوگ کہتےہیں عدالت خود نوٹس لے،ہمیں جانانہ پڑے، عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔

تین ماہ میں قوانین تیارہوگئے تو آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 3 ماہ میں قوانین تیار ہوگئے تو پھر آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی،کیا ہم آپ کی بات پرلکھ دیں کہ 3 ماہ میں قوانین بنادیں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اپنے فیصلے میں مدت کا تعین نہ لکھیں وہ کام ہم کرلیں گے، قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔

جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں،اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے، جنرل راحیل کو تو پنشن مل رہی ہے، رولزمیں توجنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں،ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں،آئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے۔

Activity - Insert animated GIF to HTML

آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے، جسٹس مظہر عالم

ساتھ ہی جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پہلے تو کسی کو ایک سال کسی کو دو سال کی توسیع دی گئی، کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر ہوتے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں، آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔

آرمی چیف ملک کےدفاع پر نظر رکھے یا آپ کے ساتھ بیٹھ کرقانونی غلطیاں دورکرے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرمی چیف ملک کےدفاع پر نظر رکھے یا آپ کے ساتھ بیٹھ کرقانونی غلطیاں دورکرے،انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آج ہی سمری لے آئیں، تین نقاط کا بھی خیال رکھیں، سمری سے سپریم کورٹ کا ذکرختم کریں، تین سال کی مدت کو بھی ختم کریں، چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کا بیان حلفی دیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ10 رکنی فل کورٹ بیٹھے گا تب تک آپ سمری تیار کرکے لے آئیں،اگر تاریخ دیں گے تو اس کے ذمے دار آپ  ہوں گے،جو کچھ کارروائی میں ہوا ہے ہم ریکارڈ کا حصہ بنا دیں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔ عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو چند گھنٹے کے بعد سنا  دیا گیا۔

Comments are closed.