کوالالمپور: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اگر بھارت فسطائیت اور انتہا پسند ہندووتوا کے راستے پر ہی چلتا رہا تو ہمیشہ کے لیے اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
ملائیشیا میں ایڈوانس اسلامک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انہوں نے ملائیشیا کو اپنی زندگی میں تبدیل اور ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور ملائیشیا کی سب سے زیادہ اچھی چیز یہ لگتی ہے کہ یہ انتہائی تہذیب یافتہ معاشرہ ہے ملائیشیا میں مذہب اور لسانی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی ہے جو کسی مہذب معاشرے کی سب سے بڑی علامت ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمیں اسلام کے سنہرے دور کو دیکھنا چاہیے جہاں تمام مختلف مذاہب ایک ساتھ رہتے تھے جہاں برداشت تھی اور لوگ ایک دوسرے کو قبول کرتے تھے، مذہب کو کبھی بھی جبری طور پر مسلط نہیں کیا گیا تھا جب کہ ملائیشیا میں لوگ جس طرح رہتے ہیں تو ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے اور میرے خیال میں ہمیں اس کو اپنانا چاہیے۔
وزیراعظم نے سلمان رشدی واقعے کے بعد پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو مسلمان ممالک اور ان کی قیادت کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان رہنماؤں کو دنیا کو یہ سمجھانا چاہیے تھا کہ یہ چیز ہمارے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتی ہے، نبی اکرمﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں اور ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بعد مغرب میں یہ تاثر بن گیا کہ اسلام ایک عدم برداشت کا مذہب ہے، یہ مغربی اقدار کے خلاف ہے جس کے بعد اسلاموفوبیا بڑھتا چلا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ مسلم دنیا کے رہنماؤں نے دہشت گردی اور مذہب کو آپس میں جوڑنے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے خودکش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیا گیا حالانکہ تاریخی شواہد اس بات کی یکسر نفی کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم مہاتیرمحمد اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے بات کی تاکہ اس مسئلے کو اجاگر کر کے کوئی ایسا میڈیا تشکیل دے سکیں جو اسلام کے خلاف ان غلط فہمیوں کو دور کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نہ تو اسلام مخالف پراپیگنڈے کا شکار ہوں اور نہ ہی انتہا پسندی کی جانب راغب ہوں اور ہم اب بھی اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جب وزیراعظم بنا تھا تو سب سے پہلے بھارت سے رابطہ کیا تھا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے کیونکہ سب سے زیادہ غریب لوگ ہمارے خطے میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں غربت کو کم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں ملک تعلق بہتر کرتے ہوئے آپس میں تجارت شروع کریں، دونوں ملکوں میں جتنی کشیدگی کم ہوگی اتنا ہی ہم دفاع پر کم خرچ کریں گے اور تجارت پر زیادہ خرچ کر سکیں گے جس سے خوشحالی بڑھے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی پیشکش کو مسلسل ٹھکرایا جاتا رہا جس کی کوئی عملی وجہ نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت پر ایک انتہا پسند نظریے کا قبضہ ہے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ بھارتی عوام کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اس سے بھارت ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں بڑی اقلیت موجود ہے اور ہندووتوا کے انتہا پسند فاشسٹ نظریے نے 50 کروڑ افراد کو الگ کردیا اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر ایک مرتبہ بھارت میں انتہا پسند نظریے کا جن بوتل سے باہرآ گیا تو اسے دوبارہ بوتل میں ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں بھارت سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ اس کے لیے سب سے بڑی تباہی ہے کیونکہ یہ فاشسٹ سوچ کسی اور نظریے کو پنپنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بھارت میں جب کبھی بھی ایسی حکومت آتی ہے جو برصغیر میں غربت کے خاتمے اور خوشحالی پر یقین رکھتی ہوئی تو اسے دوستی کی پیش کش کرنے والا پہلا ملک پاکستان ہوگا۔
Comments are closed.