پاکستانی طلبہ کی واپسی کا کیس: کیوں نہ وزراء کو ووہان بھیج دیاجائے،چیف جسٹس اطہرمن اللہ

اسلام آباد:چین سے پاکستانی طلبہ کی واپسی سےمتعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معاون خصوصی ظفرمرزا، زلفی بخاری اور سیکرٹری کابینہ کے ساتھ بچوں کے والدین کی ملاقات کرانے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مسئلے کو حل کرنا وزارت خارجہ کا نہیں، وفاقی کابینہ کا کام ہے، کیوں نہ چند وفاقی وزراء کو وہان بھیج دیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس اطہر من اللہ نے کرونا وائرس کے باعث چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی، نمائندہ وزارت صحت نے والدین کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کیلئے کمیٹی بنانے کا بتایا تو عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کمیٹی کا نہ بتائیں، حکومت پاکستان کیوں غیر زمہ دار ہے؟ متاثرین مسلسل شکایت کر رہے ہیں کہ حکومت انہیں سن نہیں رہی، مسئلے کو حل کرنا وزارت خارجہ کا نہیں، وفاقی کابینہ کا کام ہے، کیوں نہ دو چار وفاقی وزراء کو وہان  کے دورے پر بھیج دیں۔

وزارت خارجہ کے نمائندہ نے بتایا کہ چینی حکومت کی نئی رپورٹس آنی ہے، اس پر ہی کابینہ فیصلہ کرے گی، چین میں پھنسے طلبا کے والدین کے وکیل نے دلائل دئیے کہ طلبہ اورحکومتی موقف میں واضح فرق ہے۔ عدالت اگرایک وزیراعظم کو بلاسکتی ہے تو اس کیس میں بھی کوئی حکم جاری کر دے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سنگین صورتحال کا سامنا ہے، فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ یہ عدالت اور یہاں موجود افراد میں کوئی ماہر نہیں جواس مسئلے کا حل نکالے۔ عدالت صرف والدین کو مطمئن کرنے کے لئے درخواست سن رہی ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ والدین کی جانب سے 4 رکنی وکلا ٹیم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا،  معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز زلفی بخاری اور سیکرٹری کابینہ سے ملاقات کرے گی۔ مقدمے کی مزید سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

Comments are closed.