اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان سے متعلق تحفظات باہمی طور پر حل کیے جائیں گے۔ پاک افغان باہمی معاملات کے حل کیلئے امریکا کی ضرورت نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں امریکا کے افغانستان سے فوجی انخلا کے ارادے کے پیش نظر کہا کہ انہیں (افغانستان کو) پاکستان سے براہ راست مذاکرات کرنے چاہیے کیونکہ امریکا، انخلا کی منصوبہ بندی کررہا ہے جبکہ ہم ہمیشہ پڑوسی رہیں گے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو افغانستان سے کوئی مسئلہ ہوا تو ہم واشنگٹن سے کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ (پاکستان اور افغانستان میں) اعتماد کی کمی موجود ہے اور پاکستان نے اعتماد کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی طرف دیکھنے کے بجائے ایک ادارہ جاتی میکانزم موجود ہے جس کے ذریعے افغانستان کوئی بھی مسئلہ پاکستان کے ساتھ براہ راست اٹھا سکتا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے امریکا- طالبان امن معاہدہ کبھی نہ ہوتا اگر پاکستان فریقین کو اس پر قائل نہ کرتا کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔
واضح رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بات افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا-افغان مشترکہ اعلامیے کے تناظر میں کہی جو ہفتے کے روز افغان صدر اشرف غنی، امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے امن معاہدے سے مطابقت پر ایک تقریب میں جاری کیا۔
اس اعلامیے کی ایک شق میں کہا گیا کہ ‘امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ دونوں ممالک میں سے کسی کی سلامتی کو دوسری طرف کی سرزمین سے کسی بھی کاروائی کا خطرہ نہ ہو’۔
یاد رہے کہ دوحہ معاہدے پر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے۔جس کے تحت امریکا نے 14 ماہ کے عرصے میں افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک ک افواج کے مکمل انخلا کا وعدہ کیا گیا ہے جبکہ طالبان نے پرتشدد کارروائیاں روکنے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والی عسکری تنظیموں سے تعلقات ختم کرنے کا عزم کیا۔
Comments are closed.