لاہور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے لاہور میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تبدیلی کے لیے 90 دن کی گنتی اب شروع ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان 90 دنوں میں تحریک انصاف فیصلہ کن مرحلے پر پہنچے گی — یا تو وہ سیاست میں رہیں گے یا ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ “بانیٔ تحریک ہمیشہ 90 دن کا کہتے تھے، وہ 90 دن کل رات سے شروع ہو چکے ہیں”۔ اگر ملک میں سیاست غلامی کا ذریعہ بن گئی ہے تو ایسی سیاست بہتر ہے ہی نہیں، ہم ایسا راستہ چنیں گے جہاں ہماری آئندہ نسلیں آزاد ہوں۔
ظلم کے باوجود کارکن ڈٹے ہوئے ہیں
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیسز میں کوئی جان نہیں ہے۔ انہوں نے پارٹی کے ووٹرز، سپورٹرز اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے بدترین ریاستی دباؤ کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔
ریاستی ادارے اپنے دائرے سے تجاوز کر رہے ہیں
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریاستی ادارے آئینی حدود چھوڑ کر سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول، جن کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے، وہ آج تحریک انصاف کے پیچھے لگے ہیں اور بلوچستان و خیبرپختونخوا میں عدم استحکام کے ذمہ دار ہیں۔
مارشل لا اور فوجی سیاست پر تنقید
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مارشل لاؤں نے پاکستان کی جمہوریت کو عالمی سطح پر نقصان پہنچایا اور آج جو لوگ فوجی کردار ادا کر رہے ہیں، وہ جوابدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا،
> “میں خود ایک فوجی کا بیٹا ہوں، مگر چند لوگوں کی وجہ سے فوج بدنام ہو رہی ہے۔”
مذاکرات کی دعوت اور اداروں کی اصلاح
انہوں نے کہا کہ عمران خان تمام تر مظالم کے باوجود مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ علی امین نے سیاسی جماعتوں، فیصلہ سازوں اور اداروں کو مل کر بیٹھنے، غلطیاں تسلیم کرنے اور اصلاحات کا عمل شروع کرنے کی دعوت دی۔
قانون کی یکسانیت پر زور
علی امین نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے کارکنان پر چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، گھروں پر چھاپے مارے گئے اور تشدد کیا گیا، یہ سب غیر آئینی ہے۔
دہشتگردی اور معاشی بحران پر سوالات
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں دہشتگردی کیوں نہیں تھی؟، اور اب ملک کی معیشت بدترین حالات میں کیوں ہے؟ انہوں نے پی ڈی ایم حکومت کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ وہ الزامات کے بغیر ثبوت دیں، اگر سازش ثابت ہو جائے تو وہ خود کو عوامی سزا کے لیے پیش کر دیں گے۔
حقیقی آزادی کی دعوت
ان کا کہنا تھا کہ قوم کے سامنے دو ہی راستے ہیں — غلامی یا آزادی۔ اگر آزاد رہنا ہے تو تحریک انصاف کا ساتھ دینا ہوگا۔ “حقیقی جمہوریت اور آزادی کی تحریک میں شامل ہوں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد سانس لے سکیں۔”
جلسوں پر پابندی پر تنقید
انہوں نے شکایت کی کہ لاہور میں جلسے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ وہ پرامن احتجاج کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ “ہم آئے، پرامن رہے، اور واپس جا رہے ہیں، پھر بھی اجازت نہیں؟”
Comments are closed.