چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے عمران خان، شاہ محمود قریشی سمیت دیگر ملزمان کی 9 مئی کیسز راولپنڈی کی عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کے لیے حکومتی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ افسوسناک ہے، ملک کو مذاق بنا دیا گیا، جو جج پسند نہ آئے اس کے خلاف تقریریں شروع کردیں یہ نیا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بتائیں کیا جج کی مخالف پارٹی سے رشتہ داری ہے یا اس نے پیسے پکڑے ہیں؟ جیل میں کونسا خطرہ ہے؟ کیا ججز آسمان پر بیٹھ کر سماعت کریں؟ یہ کہاں لکھا ہے جج کے خلاف ریفرنس آئے گا تو وہ کام بند کر دے گا؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ من پسند جج کے پاس کیسز لگوانا چاہتے ہیں، حکومت کو نہ لاہور ہائیکورٹ اور نہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز پر اعتبار ہے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ ہمارا کسی جج کے ساتھ ذاتی مسئلہ نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ پراسیکیوٹر صاحب یہ حکومت کا ذاتی مسئلہ ہی ہے۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کی دو، دو لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے کیسز کی دوسری عدالت منتقلی کی درخواستیں خارج کر دیں۔
Comments are closed.