لاپتہ کوہ پیماؤں کا تیسرے روز بھی سراغ نہیں مل سکا

علی سد پارہ سمیت دو غیر ملکی کوہ پیما جان سنوری اور جے پی موہر پانچ فروری کی رات سے کے ٹو چوٹی سر کرنے کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے، تاہم چوٹی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ان کے ٹریکر نے کام کرنا بند کردیا، جس کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔گذشتہ روز بھی ان کی تلاش کا کام جاری تھا اور آج اتوار کے روز بھی چار مقامی کوہ پیماؤں کے علاوہ نیپالی کوہ پیماؤں نے بھی تلاش میں حصہ لیا۔

نیپالی کوہ پیما چانگ داوا شرپاکے مطابق کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے جانے والے ہیلی کاپٹر میں وہ خود بھی موجود تھے، جس نے ساڑھے سات ہزار میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن علی سد پارہ کی ٹیم کا کچھ سراغ نہیں ملا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اب وہ واپس بیس کپمپ آ گئے ہیں کیونکہ اوپر موسم خراب ہے، جس کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کو اڑان بھرنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ اندھیرے سے پہلے ہیلی کاپٹر کی ری فیولنگ کے بعد کوہ پیماؤں کی تلاش کی دوبارہ کوشش کی جائے گی۔

چانگ داوا شرپا کے مطابق اس وقت تمام کوہ پیما بیس کیمپ میں موجود ہیں جبکہ ایک ہیلی کاپٹر علی سد پارہ کےصاحبزادے ساجد سد پارہ  کو لے کر سکردو روانہ ہو گیا ہے۔

اس سے قبل اتوار کے روز بھی دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو آپریشن ناکام لوٹا تھا۔ادھر ان کوہ پیماؤں میں شامل پاکستانی مہم جو محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا ہے کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا اور یہ کہ ان کی تلاش اور بچاؤ کی مہم کو اب ان کی لاشوں کی تلاش کی مہم کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔

Comments are closed.