ترکیہ میں صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف عوامی غصہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ استنبول کے مقبول میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے احتجاج اب پورے ملک میں پھیل چکے ہیں، جن میں اب کسان، طلبہ، اور اپوزیشن کے بڑے رہنما بھی شامل ہو چکے ہیں۔
ہفتے کے روز یوزگیٹ میں ہونے والے احتجاج نے نیا رخ اختیار کر لیا، جب تقریباً 100 ٹریکٹروں کا قافلہ قومی پرچم لہراتے ہوئے مظاہرین کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ کسان صدر ایردوآن کی حکومت کے خلاف دلی جذبات کے ساتھ سڑکوں پر نکلے اور میئر امام اوغلو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ مظاہرین حکومت سے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امام اوغلو ترکیہ کی اپوزیشن جماعت “ریپبلکن پیپلز پارٹی” (CHP) کے مرکزی رہنما اور صدر ایردوآن کے سب سے بڑے سیاسی حریف تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی گرفتاری کو اپوزیشن نے جمہوری اصولوں پر حملہ قرار دیا ہے۔ امام اوغلو کی مقبولیت نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ان کی پارٹی کو تاریخی کامیابی دلوائی تھی، جس کے بعد ان کی گرفتاری نے عوامی جذبات بھڑکا دیے۔
پولیس کی سختی کے باوجود اب تک تقریباً 2000 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ لیکن احتجاج کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہر ہفتے طلبہ کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل رہی ہے، جنہیں “نئے زمانے کے نوجوان ترک” کہا جا رہا ہے، جو ایک مرتبہ پھر ملک کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کسان رہنما اوزل نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ عوامی آواز کو نظرانداز نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا:
“حکام کو مظاہرین کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی سوچ ترک کرنی ہوگی۔ ہم عوام کو روندنے کی اجازت نہیں دیں گے۔”
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے مہینے کئی کسانوں کو صرف اس وجہ سے جرمانہ کیا گیا کہ وہ ٹریکٹروں کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔
Comments are closed.