کراچی کے ضلع شرقی کی ایک مقامی عدالت نے صحافی فرحان ملک کے خلاف ریاست مخالف پروگرام نشر کرنے کے الزام میں درج مقدمے کی سماعت کے دوران ان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ مقدمے کا اندراج سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر نشر کیے گئے ایک مبینہ متنازع پروگرام کے بعد کیا گیا تھا، جس پر ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
عدالت میں سماعت کی تفصیلات
سماعت کے دوران فرحان ملک کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل ایک پیشہ ور صحافی ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فرحان ملک نے کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی بات نہیں کی بلکہ صرف عوامی مفاد میں سوالات اٹھائے تھے۔
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کر لی۔
صحافتی آزادی اور قانونی پہلو
پاکستان میں صحافیوں کو درپیش قانونی چیلنجز اور دباؤ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی ادارے بارہا تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف “ریاست مخالف سرگرمیوں” کے الزامات کے تحت مقدمات درج کرنا ایک حساس معاملہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف صحافت بلکہ آئین میں دی گئی آزادی اظہار رائے کی ضمانت پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات میں ثبوت کا بوجھ ریاست پر ہوتا ہے، اور عدالت کو اس بات کا بغور جائزہ لینا ہوتا ہے کہ آیا کوئی رپورٹ یا پروگرام واقعی ریاستی سلامتی کے خلاف تھا یا محض تنقید پر مبنی تھا۔
فرحان ملک کا ردعمل
ضمانت منظور ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرحان ملک کا کہنا تھا کہ وہ صحافت کو ایک مقدس ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ بھی سچ بولتے رہیں گے، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔
آئندہ لائحہ عمل
اب جب کہ ضمانت منظور ہو چکی ہے، کیس کی باقاعدہ سماعتیں جاری رہیں گی۔ عدالت مستقبل میں اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے یا مقدمہ خارج کیا جائے گا۔
Comments are closed.