نیوزی لینڈ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو پر شدید تنقید کی ہے۔ بدھ کے روز وزیرِاعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ نیتن یاہو “معاملہ فہمی کی صلاحیت سے عاری اور الجھن کا شکار ہو چکے ہیں”۔ انہوں نے خبردار کیا کہ انسانی امداد کی شدید کمی، فلسطینیوں کی زبردستی نقلِ مکانی اور غزہ کا الحاق انتہائی خطرناک ہے، اور نیتن یاہو اپنی حدود سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔
غزہ کی صورتحال کو ناقابلِ قبول قرار دیا
لکسن نے غزہ شہر پر جاری اسرائیلی حملے کو مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جو مناظر راتوں رات دیکھ رہی ہے وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔
عالمی ردِعمل اور مطالبات
اس سے قبل برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور متعدد یورپی اتحادیوں نے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ غزہ میں انسانی بحران “ناقابلِ تصور حد” تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی پر کسی قسم کی پابندی نہ لگائی جائے۔
پارلیمنٹ کے باہر مظاہرے
نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے درجنوں مظاہرین نے عمارت کے باہر برتن بجا کر اور نعرے لگا کر احتجاج کیا۔ ان کے نعروں میں “ارکان پارلیمنٹ حوصلہ کریں، فلسطین کو تسلیم کریں” شامل تھا۔
پارلیمنٹ میں ہنگامہ اور رکن کی معطلی
منگل کو گرین پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ کلوئی سواربرک کو اس وقت پارلیمانی مباحثہ چیمبر سے نکال دیا گیا جب انہوں نے اسرائیل پر “جنگی جرائم کی بنا پر پابندی” کے بل کی حمایت نہ کرنے پر حکومتی اراکین کو “کمزور اور بزدل” قرار دیا اور اپنے بیان پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔
بدھ کو ایک بار پھر انہوں نے معافی سے انکار کیا اور “آزاد فلسطین” کا نعرہ لگاتے ہوئے چیمبر سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا، جس پر ایوان نے انہیں معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
اسپیکر کا مؤقف
ایوان کے اسپیکر جیری براؤنلی نے کہا کہ 68 اراکینِ پارلیمنٹ پر ذاتی حملہ ناقابلِ قبول ہے، اور کسی بھی تقریر کے دوران ذاتی توہین کو ایوان کی روایات میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔
عالمی سطح پر اثرات
نیوزی لینڈ کی ممکنہ پالیسی تبدیلی اور وزیرِاعظم کے سخت بیانات خطے میں جاری تنازع کے حوالے سے بین الاقوامی سفارت کاری پر نمایاں اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس پیشرفت سے فلسطینی ریاست کے حق میں عالمی دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
Comments are closed.