بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی پر پابندی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی کی سیاسی رجسٹریشن بحال کر دی ہے، جس کے بعد ایک دہائی سے زائد عرصے بعد جماعت کو دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ فیصلہ سابقہ حکومت کی جانب سے رجسٹریشن منسوخ کیے جانے کے خلاف اپیل پر سنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جماعتِ اسلامی کو انتخابی کمیشن کے ساتھ باضابطہ طور پر سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کیا جا سکے گا۔ انتخابی کمیشن کے وکیل توحید الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’عدالت نے الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق جماعت کی رجسٹریشن کے معاملے پر عملدرآمد کی ہدایت دی ہے۔‘‘

جماعتِ اسلامی کے وکیل شیشیر منیر نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملک میں ’’جمہوری، جامع اور کثیرالجماعتی نظام‘‘ کی بحالی کی جانب اہم قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ تمام بنگلہ دیشی شہری، خواہ کسی بھی نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، جماعتِ اسلامی کو ووٹ دیں گے اور پارلیمنٹ ایک فعال اور تعمیری مکالمے کا مرکز بنے گی۔‘‘

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 27 مئی کو بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے جماعت کے سینئر رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کے خلاف جنگی جرائم کی سزا کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ انہیں 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران ریپ، قتل اور نسل کشی کے الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ جماعتِ اسلامی نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا، جس پر آج بھی بنگلہ دیش میں شدید تنقید کی جاتی ہے۔ جماعت اُس وقت کے عوامی لیگ کے رہنما اور بانیِ بنگلہ دیش، شیخ مجیب الرحمان کی مخالف تھی۔ ان کی بیٹی اور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے دورِ حکومت میں جماعت کو بین کر دیا تھا اور اس کی قیادت کے خلاف سخت کارروائیاں کی تھیں۔

واضح رہے کہ موجودہ عبوری حکومت نے مئی میں عوامی لیگ پر بھی پابندی عائد کر دی تھی، جس پر گزشتہ سال بڑے پیمانے پر احتجاج اور بدامنی کے بعد شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔

Comments are closed.