چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو کو لیکر پاکستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں بحث زور و شور سے جار ی ہے۔ اس انٹرویو کا بنیادی نقطہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ان تقاریرکے حوالے سے بلاول بھٹو کا موقف ہے ، جن میں سابق وزیر اعظم کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر براہ راست انتخابات میں دھاندلی اور عمران خان کو برسرِاقتدار لانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے ۔
چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انٹرویو میں کیا کہا ، اس کا تجزیہ درست پیرائے میں کیا جا رہا ہے یا نہیں، اس پر غیر جانبداری سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو کے انٹرویو کا اگر،،ون لائنر،، نکالا جائے تو صرف ا تنا ہے کہ،، پورے ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کی طرح نواز شریف کا فوجی قیادت کا نام لیکربراہ راست حملہ آور ہونا ، بلاول بھٹو کے لیے بعد حیرت کا باعث تھا۔،،
بلاول بھٹو کے مطابق اپوزیشن ا تحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے ایجنڈے کی تیاری کے وقت نواز لیگ نے آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ یا آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کا نام نہیں لیا تھا، یہ بحث ضرور ہوئی تھی کہ الزام صرف ایک ادارے پر لگانا چاہیے یا پوری اسٹیبلیشمنٹ پر ؟ اور اس پر اتفاق ہوا تھا کہ تقاریر میں کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا نام استعمال کیا جائے گا؟
ملک کے سنجیدہ حلقے اس بیان کو اس کی روح کے مطابق سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عمومی طور پر یہ رائے غالب ہے کہ اس انٹرویو کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ پیپلز پارٹی اپنی کسی سابقہ پوزیشن سے پیچھے ہٹ رہی ہے یا پی ڈی ایم اتحاد سے راہیں جد اہو سکتی ہیں؟گوجرانوالا کے بعد کراچی جلسے میں نواز شریف کا تقریر نہ کرنا ہی یہ واضح کر چکا تھا کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کی جانب پاک فوج کی قیادت پر براہ راست حملوں کو کسی طور درست نہیں سمجھتی ، تو پھر اب اس انٹرویو میں ایسا کیا ہے جس پر اتنا واویلا مچایا جا رہاہے اور خاص کر حکومت اسے پی ڈی ایم میں کسی ممکنہ دراڑ سے تعبیر کر رہی ہے ۔
بلاول بھٹو ہوں یا پیپلز پارٹی کی ماضی کی قیادت ، مشکل ترین حالات میں بھی ملکی سیکیورٹی اداروں پر کبھی بھی براہ راست حملے نہیں کیے اور یہ پیپلز پارٹی کی بالغ سیاسی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سانحہ تک ، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اپنے جذبات اور دکھ کو قومی سلامتی کے معاملات پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اب بھی پیپلز پارٹی کی سوچ پہلے دن سے بالکل واضح ہے، بلاول بھٹو نے اس انٹرویو میں بھی وہی بات آگے بڑھائی کہ نواز شریف کی اپنی سیاسی جماعت ہے اور انہیں اپنی سوچ کے مطابق سیاست میں آگے بڑھنے کا حق حاصل ہے ۔
بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت اس کا خیر مقدم کرتی کہ اپوزیشن اتحاد میں موجو د بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے انتہائی سیاسی بالغ نظری اور سنجیدہ سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست تنقید کی حوصلہ شکنی کی ہے ،کیونکہ ایسے بیانات کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت ا ٹھا رہاہے اور دنیا میں پاکستان کے سیاسی اور جمہوری نظام کے حوالے سے بھی منفی تاثر ابھر رہاہے ۔ حکومت بھی اپوزیشن سے اسی سوچ کا تقاضا کرتی رہی ہے لیکن وقت آنے پر عمل اس کے برعکس ہوا۔وزیر اعظم عمران خان سے لیکر کرپشن الزامات پر برطرفی کے بعدبغیر تحقیقات کے اچانک ہی پنجاب سے نمودار ہونے والی فردوس عاشق اعوان اور مزاحمت کا استعارہ احمد افراز،کے بیٹے شبلی فراز تک ،،سب کے بیانات جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
بلاول بھٹو کے انٹرویو پر حکومتی رد عمل بتا رہاہے کہ حکومت سمجھتی ہے اس کی بقاء اپوزیشن اور پاک فوج کے درمیان براہ راست محاذ آرائی میں ہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ یقینا ً عسکری حکام بھی اب اس صورتحال کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ رہے ہوں گے کہ عمران خان اتنے بھی سادہ نہیں جتنے انہیں سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے ۔ حکومت اپنے بچاو کے لیے عسکری قیادت کا کندھا استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی،قطع نظر کہ اس کے قومی سلامتی اور پاک فوج ساکھ پر کس طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟ نون لیگ کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے بھی حکومتی واویلے پر نپا تلا بیان دیاہے ، انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو کے بیان پر تبصرے کرنے والے پہلے اس کا متن تو پڑھ لیں۔ ان کے اس مشورے پر سب سے پہلے عمل حکومتی وزراء اور حمایتی تجزیہ کاروں کو کرنا چاہیے تاکہ چائے کی پیالی میں طوفان ا ٹھانے کی زحمت نہ ہو۔ اب بلاول بھٹو زردار ی کے انٹرویو کا متن پڑھیں اور نتیجہ اخذ کرکریں۔
بلاول بھٹو کےبی بی سی کودئیے گئے انٹرویو کا متن
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ جب انھوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف کی تقریر میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے نام براہ راست سنے تو انھیں ،دھچکا، لگا،،کیونکہ عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے، مگر میاں نواز شریف کی اپنی جماعت ہے اور میں یہ کنٹرول نہیں کر سکتا کہ وہ کیسے بات کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ میں کیسے بات کرتا ہوں۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھوں نے واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نام نہیں لیے ہوں گے۔ یہ ایسا الزام نہیں ہے کہ آپ ایک جلسے میں کسی پر بھی لگا دیں۔ انھیں انتظار ہے کہ نواز شریف کب ثبوت پیش کریں گے۔ کووڈ کے باعث نواز شریف سے براہِ راست ملاقات کا موقع نہیں ملا، جو کہ بہت ضروری ہے، تاکہ میں ان سے ملاقات کروں اور اس معاملے پر تفصیل سے بات کروں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ہرگز یہ مطالبہ نہیں ہے کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ہو جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف اپنے طریقے سے بات کر سکتے ہیں، یہ ان کا حق ہےجبکہ میں اپنے طریقے سے بات کروں گا۔’ہم تین نسلوں سے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کیسے لڑا جاتا ہے،کبھی بھاگوں گا نہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا۔ پیپلز جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے دوران تشکیل پانے والے ایجنڈے پر مکمل طور پر قائم ہے۔ اے پی سی کے اجلاس کے دوران میں نے ہی یہ شکایت کی تھی کہ جس طرح پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی قابلِ مذمت ہے، بالکل اسی طرح، ہمارے چیف جسٹس کا ڈیم فنڈ کی مہم پر نکلنا یا ان کی الیکشن کے دن کچھ سرگرمیاں قابلِ مذمت ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان کی حکومت لانے کی ذمہ داری کسی شخص پر نہیں ڈالی جا سکتی۔انھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان پیپلز پارٹی نے کُھل کر اپنے مؤقف کا اظہار نہیں کیا ہے اور براہ راست کسی شخصیت کا نام لینے سے گریز کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہاکہ انھوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ان کی جماعت کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں وجود میں آئی اور اس کانفرنس کی قرارداد اور دستاویز ہی اس میں شامل تمام جماعتوں کی پالیسی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں میں کام کرنے والے اہلکار اس سوچ کو مثبت انداز میں لیتے ہیں کہ وہ ادارے جن کے لیے، وہ اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں، غیرمتنازع ہوں۔
بلاول بھٹو کاکہناتھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر ادارہ اپنا کام کرے،ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس میں دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم انتہا پسندانہ رویہ اختیار کریں اور ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کر لیں جبکہ دوسرا یہ کہ ہم رکیں اور سوچیں کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ترقی پسند جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جبکہ کمزور جمہوریت بھی آمریت سے کئی درجے بہتر ہے۔ بلالو بھٹو نے ’ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔۔انھوں نے کہا کہ پی ڈیم ایم کے پاس ابھی استعفوں کا آپشن بھی موجود ہے جبکہ دھرنے بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری انداز میں مقصد حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔
کیپٹن صفدر گرفتاری اور آئی جی سندھ کے مبینہ اغواء پر بلاول بھٹو زرداری کاکہنا تھاکہ اس معاملے پر ان کا آرمی چیف سے دوبارہ رابطہ نہیں ہوا،’مگریہ علم ہے کہ اس معاملے پر انکوائری چل رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر تحقیقات مکمل کی جائیں گی اور قصوروار افراد کا تعین کر کے انھیں سزا بھی دی جائے گی، میں اس وقت صبر سے انتظار کر رہا ہوں کہ مجھے اس انکوائری سے متعلق آگاہ کیا جائے۔
Comments are closed.