جمعرات کے روز امریکہ نے سرکاری طور پر ان درجنوں ممالک کی مصنوعات پر نئے محصولات (ٹیرف) کا اطلاق شروع کر دیا ہے جو گزشتہ ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت منظور کیے گئے تھے۔ ان ٹیرف کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد، 25 فیصد، یہاں تک کہ 41 فیصد تک کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ کا دعویٰ: اربوں ڈالر امریکہ میں آ رہے ہیں
سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر ایک بیان میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ “یہ آدھی رات ہے! اربوں ڈالر کے ٹیرف اب ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بہہ رہے ہیں۔” انہوں نے اشارہ دیا کہ ان اقدامات سے امریکی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔
یورپ، جاپان، جنوبی کوریا اور ہندوستان متاثر
یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے قریبی تجارتی شراکت داروں کی بہت سی اشیا اب 15 فیصد ٹیرف کی زد میں آ گئی ہیں، حالانکہ ان ملکوں نے واشنگٹن کے ساتھ معاہدے بھی کیے تھے تاکہ بڑے اضافوں سے بچا جا سکے۔ دوسری طرف، ہندوستان کو 25 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے، جو تین ہفتوں میں دوگنا ہو جائے گا۔
سب سے زیادہ ٹیرف ایشیائی ممالک پر
امریکی حکومت نے شام، میانمار، اور لاؤس جیسے ملکوں پر سب سے زیادہ 41 فیصد تک کے ٹیرف عائد کیے ہیں۔ یہ فیصلہ ان ممالک کی تجارتی پالیسیوں اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں لیا گیا ہے۔
سیمی کنڈکٹرز پر بھی سخت اقدامات کی تیاری
ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک اور بیان میں کہا کہ وہ سیمی کنڈکٹرز پر 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم، تائیوان کی مشہور چپ ساز کمپنی TSMC کو امریکہ میں فیکٹریاں قائم ہونے کی بنیاد پر استثنیٰ حاصل ہوگا۔
کاروباری حلقوں کا خدشہ
امریکی کمپنیوں اور صنعتی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ ان نئے ٹیرف سے چھوٹے کاروباروں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اقتصادی ماہرین نے بھی متنبہ کیا ہے کہ ان پالیسیوں سے مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور معیشت کی طویل المدتی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔
Comments are closed.