کیا غیر فوجی افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران ججز نے اہم آئینی اور قانونی سوالات اٹھائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے، “کیا دنیا میں کسی اور ملک میں آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 (ڈی) جیسا قانون موجود ہے؟”

عدالتی کارروائی

سات رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، نے سماعت کے دوران سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل سنے۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ “ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے مطابق دیا گیا تھا، لیکن موجودہ کیس میں مختلف آئینی اور قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔”

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا، “کیا کوئی ایسا شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو، محض جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے دائرہ کار میں آ سکتا ہے؟” بینچ کے دیگر ججز نے بھی سوالات اٹھائے کہ آئین کے تحت شہریوں کے مقدمات عام عدالتوں میں چلنے چاہئیں، پھر فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کی کیا حدود ہیں؟

پس منظر اور آئندہ کی سماعت

یہ اپیل 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ عام شہریوں کے کیسز کو فوجی عدالتوں میں بھیجنا آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے مزید دلائل کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔

Comments are closed.