غزہ میں جنگ بندی کا جشن، تل ابیب میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کے اعلان کے بعد غزہ کے جنوبی علاقوں میں جشن کا سماں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد غزہ کے عوام نے گزشتہ رات جاگ کر گزاری، اور برسوں کی تباہی و خوف کے بعد پہلی بار خوشی اور امید کے نعرے سنائی دیے۔

خان یونس اور پناہ گزین کیمپوں میں جشن
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس سمیت متعدد پناہ گزین کیمپوں میں عوام بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ مرد، خواتین اور بچے سب ہی جنگ بندی کے اعلان پر نعرے لگا رہے تھے۔ غزہ کے شہریوں نے گانے گا کر، آتشبازی کر کے اور خوشی کے ترانے سنا کر اپنے اطمینان اور سکون کا اظہار کیا۔ ایک شہری نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ “ہم نے برسوں بعد امید محسوس کی ہے، شاید اب ہمارے بچے امن کی نیند سو سکیں۔”

اسرائیل میں بھی جشن اور قیدیوں کے اہل خانہ کی خوشی
دوسری جانب اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں بھی جشن منایا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کے تحت اگلے پیر کو قیدیوں کی رہائی متوقع ہے، جس کی خبر نے اسرائیلی عوام کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹا دی۔
قیدیوں کے اہل خانہ ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور آنسوؤں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ وہ لمحہ ہے جس کا ہم دو سال سے انتظار کر رہے تھے۔”

ابھی بھی خدشات برقرار — غزہ میں خطرے کی وارننگ
اگرچہ جنگ بندی کے اعلان نے امن کی امید پیدا کی ہے، لیکن غزہ میں مکمل سکون تاحال قائم نہیں ہو سکا۔ سول ڈیفنس حکام کے مطابق معاہدے کے بعد بھی بعض علاقوں میں اسرائیلی حملوں کی اطلاعات ملی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ شمالی غزہ اور غزہ سٹی واپس نہ جائیں، کیونکہ وہاں اب بھی حالات “خطرناک” ہیں۔
فوج نے یہ بھی کہا کہ دفاعی صورتحال کے پیشِ نظر تعیناتیاں برقرار رہیں گی اور شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔

عوام کی امید — امن کا نیا آغاز
غزہ اور اسرائیل دونوں جانب عوامی ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسوں کی جنگ، تباہی اور خوف کے بعد امن کی خواہش ایک مشترکہ جذبے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ غزہ کے باسی اب دعاگو ہیں کہ یہ جنگ بندی عارضی نہ ہو بلکہ پائیدار امن کی بنیاد بنے۔

Comments are closed.