وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج کے انٹرنل اسٹرکچر میں تبدیلی ایک پیشہ ورانہ معاملہ ہے، جسے سیاسی رنگ دینا ملکی مفاد میں نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم مکمل طور پر پارلیمانی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق منظور کی گئی ہے، اس پر اعتراض بلاجواز ہے۔
آئینی ترمیم کا دفاع
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین میں درج تمام پارلیمانی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے، اسے متنازع قرار دینا حقائق کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم کا مسودہ باقاعدہ ایوان میں پیش کیا گیا، پھر قواعد کے مطابق متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا جہاں تین دن تک ہر شق پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔
پارلیمانی طریقہ کار پر مکمل عمل
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ کمیٹی نے بعض نکات حذف کیے، کچھ میں ترامیم شامل کیں، اور ہر شق پر باقاعدہ ووٹنگ ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو چکی ہو، اسے متنازع قرار دینا درست نہیں۔
اپوزیشن کے بائیکاٹ پر تنقید
انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو واقعی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوتا تو تجاویز لاتی، مگر انہوں نے قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یومِ آزادی پر بھی اپوزیشن کو “میثاقِ پاکستان” کے لیے دعوت دی تھی تاکہ قومی مسائل پر مشترکہ پالیسی بنائی جا سکے، لیکن پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں بیٹھنے کو تیار نہیں۔
حکومت کی مفاہمتی پیشکش
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے فورم سے اپوزیشن کو تین مرتبہ مذاکرات کی پیشکش کی گئی، مگر ہر بار انہوں نے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی تھی کہ صحت، آبادی، لوکل باڈیز اور دیگر عوامی مسائل پر بھی اتفاقِ رائے پیدا ہو، لیکن اپوزیشن کے رویے نے رکاوٹ پیدا کی۔
ترقی اور اتفاقِ رائے کی کوششیں جاری
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عوامی اہمیت کے معاملات پر سنجیدہ بحث اور غور و فکر کا آغاز ہو چکا ہے، جیسے جیسے اتفاقِ رائے پیدا ہوگا، مزید آئینی ترامیم بھی متوقع ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلح افواج کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلی پیشہ ورانہ نوعیت کا معاملہ ہے، اسے سیاسی تنازع بنانا اداروں اور ملک دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
Comments are closed.