چینی صدر کا اقوام متحدہ سے خطاب،دُنیا کوساتھ لےکر چلنے کی خواہش، خوشحالی بانٹنے کا عزم

تحریر: عابد رشید

اقوم متحدہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر چین کے صدر شی جن پنگ کا جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب ان کی دُنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش اور غریب اور ترقی پزیر ممالک کے ساتھ خوشحالی بانٹنے کے عزم کا اظہارہے۔

 اپنے خطاب میں چینی صدر شی جنپنگ نے جہاں اقوام متحدہ کو اُس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی ہے وہاں ترقی یافتہ ملکوں اوربالخصوص علاقے میں اپنی چوہدراہٹ کا خواب دیکھنے یا عزم رکھنے والے ملکوں کو بھی آئینہ دکھایا ہے ۔چینی صدر کے مدلل اور بامعنی خطاب پر تبصر ہ کرنے سے قبل ہم صدر شی جن پنگ کے خطاب کا جائزہ لیتے ہیں۔

 ”جناب صدر!!

          میرے ساتھیو!    75سال قبل پوری دنیا کے عوام نے سخت جدوجہد اور زبردست قربانی کے بعد فسطائیت کے خلاف جنگ میں عظیم فتح حاصل کی۔ جو در حقیقت انصاف کی فتح اور لوگوں کی فتح تھی۔

          پچھلی صدی کے پہلے نصف تک انسان کو دو تباہ کن جنگوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ایک المیہ کی صورت میں سامنے آیا۔اور اسی کے پس منظر میں اقوام متحدہ (یو این) کا ادارہ وجود میں آیا۔75 سال کے دوران اس تنظیم نے غیر معمولی اقدامات کئے ہیں جن کے نتیجے میں دنیا میں امن اور ترقی کے نئے در وا ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے قیام کے 75 سال بعد انسانی معاشرے میں ڈرامائی پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ہم نے سائنس اورٹیکنالوجی اور صنعتی انقلاب میں نمایاںترقی کا تجربہ کیا ہے۔ اب ہم اس سے بھی زیادہ وسیع سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور صنعتی تبدیلی کے ایک نئے دور کو گلے لگا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر معاشرتی پیداواری صلاحیت میں بے مثال اضافہ اضافہ ہوا ہے۔ چیلنجوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کے حوالے سے بنی نوع انسان کبھی بھی اتنی طاقتور نہیں رہا جتنا موجودہ دور میں ہے

اقوام متحدہ کی تشکیل کے 75 سال بعد بین الاقوامی صورتحال میں گہری تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ بہت سارے ترقی پذیر ممالک نے قومی آزادی حاصل کی ہے۔ ایک ارب سے زیادہ افراد غربت سے نکل چکے ہیں۔ اور کئی ارب کی آبادی جدیدیت کی طرف گامزن ہے۔ ان کامیابیوں نے دنیا میں امن اور ترقی کو کافی حد تک مستحکم کیا ہے اور بین الاقوامی زمین کی حیت کو انتہائی دور رس انداز میں تبدیل کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی تشکیل کے 75 سال بعدکثیرالجہتی تیز رفتار ترقی کا دور رہا ہے۔ دنیا کو درپیش مشکلات بڑی ہیں اور عالمی چیلنجز میںدن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ان مسائل کو صرف بات چیت اور تعاون کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہئے۔ بین الاقوامی اُمور کو ہم سب کے درمیان مشاورت کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ ہم سب ایک ہی کشتی میں ہیں اب عالمی برادری ایک نقطہ پر متفق ہے۔

طوفان کے بعدقوس و قذح کے رنگ بکھرتے ہیں ۔ اقوام متحدہ ایک کے بعد ایک امتحان سے گزرا ہے اور ہر باروہ نئی قوت اور طاقت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ سات ارب سے زیادہ افراد کی بہتر زندگی کی خواہش کر رہا ہے اور اسکا چارٹر عالمی امن اور  ترقی کی ایک اہم ضمانت ہے۔

جناب صدر!

ہماری دنیا میں ایک صدی کے دوران نظر نہ آنے والی بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ کووڈ۔19 کا اچانک حملہ پوری دنیا کے لئے سنگین امتحان ہے۔ انسانیت باہم مربوط ہونے کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے ۔ ملکوں کے باہمی مفادات اور ان کے مستقبل کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ عالمی خطرات اور عالمی چیلنجز کو سخت عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔

نئے حقائق اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں سنجیدہ سوچ کی ضرورت ہے کہ دنیا کو کس طرح کی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟ کوویڈ کے بعد کے دور میں تنظیم کو اپنا کردار کس طرح ادا کرنا چاہئے؟ اس حوالے سے میں اپنے خیالات آپکے سامنے بیان کرتا ہوں۔

سب سے پہلے اقوام متحدہ کو انصاف کے لئے ثابت قدم رہنا چاہئے اور یہی اقوام متحدہ کے چارتر کا بنیادی اصول ہے۔ چھوٹے یا بڑے تمام ممالک کے مابین باہمی احترام اور مساوات ہمارے دور کی ترقی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کو عالمی اُمور پر غلبہ حاصل کرنے کا حق نہیں اور نہ ہی کسی کو دوسروں کی تقدیر کے فیصلے کرنے یا ترقی کے فوائد کو اپنے پاس رکھنے کا حق ہے۔ کسی کو اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے دنیا کابدمعاش یا باس بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یکطرفہ نظام خود کشی کے مترادف ہے۔ سب کو وسیع مشاورت ، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے نقطہ نظر پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سلامتی کو برقرار رکھنے ، ترقی کے ثمرات کو بانٹنے اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں مشترکہ طور پر فیصلہ کرنے کے لئے سب کو مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز میں اضافہ کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ دنیا کے اکثریت والے ممالک کے مفادات اور خواہشات کی عکاسی کرنے میں زیادہ متوازن ہوسکے۔

دوسرا، اقوام متحدہ کو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہوگا۔ بین الاقوامی تعلقات سے نمٹنے کےلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصول بنیادی رہنما خطوط ہیں۔ وہ مستحکم بین الاقوامی آرڈرکی بنیاد ہیں اور انھیں برقرار رکھنا چاہئے۔ ممالک کے مابین تعلقات اور ان کے مفادت کی ہم آہنگی صرف اصولوں اور اداروں پر مبنی ہونی چاہئے۔ انہیں مٹھی لہراتے ہوئے لوگوں کے ذریعہ ان پر قبضہ نہیں کرنا چاہئے۔ بڑے ممالک کو بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کی حمایت اور اسے برقرار رکھنے اور ان کے وعدوں کا احترام کرنے میں رہنمائی چھوٹے ملکوں کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ مستثنیات یا دہرے معیار کی کوئی مشق نہیں ہونی چاہئے۔ اور نہ ہی اسے بین الاقوامی قانون کو مسخ کرکے دوسرے ممالک کے جائز حقوق اور مفادات یا عالمی امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔

تیسرا ، اقوام متحدہ کو باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینا اقوام متحدہ کا ایک بانی مشن ہے اور اس کا ایک اہم مقصد اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کیا گیا ہے۔ سرد جنگ کی ذہنیت ، نظریاتی خطوط یا صفر کا کھیل کسی ملک کے مسائل کا حل نہیں ، بنی نوع انسان کو درپیش مشترکہ چیلنج ابھی بھی حل طلب ہیں ہے۔ ہمیں بات چیت کے ساتھ تنازعات ، مشاورت سے جبر اور جیت کے ساتھ صفر کا کھیل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب کے مشترکہ مفادات کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتا ہے۔ ہمیں مشترکہ مفادات کو وسعت دینے اور ہم آہنگی اور تعاون کا  ایک بڑا عالمی کنبہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

چوتھا ، اقوام متحدہ کو حقائق پر توجہ دینی ہوگی۔ کثیرالجہتی اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، ہمیں صرف باتیں نہیں ، عمل کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کو مسئلہ حل کرنے اور ٹھوس نتائج کی طرف بڑھنا چاہئے کیونکہ اس نے متوازی طور پر سلامتی ، ترقی اور انسانی حقوق کو آگے بڑھانا ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ پائیدار ترقی کے لئے اپنے 2030 ءایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے، غیر روایتی حفاظتی چیلنجوں جیسے عوام کی صحت سے متعلق مسائل سے نمٹناترجیح ہونی چاہئے۔ عالمی میکرو فریم ورک میں ترقی کے معاملے پر روشنی ڈالی جانی چاہئے۔ اورترقی کے حقوق کے فروغ اور تحفظ پر زیادہ زور دینا چاہئے۔

چین نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر سب سے پہلے دستخط کئے تھے۔ یہ اقوام متحدہ کا بانی رکن اور ترقی پذیر ملکوں کاواحد نمائندہ ملک ہے جو سلامتی کونسل میں مستقل نشست کاحامل ہے۔ چین کثیرالجہتی کا حقیقی پیروکار رہے گا۔ یہ عالمی حکمرانی کے نظام کی اصلاح اور ترقی میں سرگرم عمل رہے گا۔ یہ اقوام متحدہ کے مرکز میں قائم بین الاقوامی نظام کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا اور بین الاقوامی امور میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کا مضبوطی سے دفاع کرے گا۔

جناب صدر!

دنیا اب ایک نئے تاریخی نقطہ آغاز پر کھڑی ہے۔ آئیے ! ہم اقوام متحدہ کے بینر تلے کثیرالجہتی( سازادانہ تجارتی نظریہ) سے اپنی پختہ وابستگی کے عزم کی تجدید کریں ، بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک برادری کو فروغ دینے کے لئے کام کریں ، اور اقوام متحدہ کے ذریعے اتحاد اور ترقی کو آگے بڑھائیں۔

 شکریہ!! “

Activity - Insert animated GIF to HTML

Comments are closed.