قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے میں چند ایسے نکات شامل ہیں جن پر وضاحت اور مفصل مذاکرات ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کا ایک اہم مقصد جنگ کا خاتمہ ہے، تاہم بعض شقوں کی تشریح اور عملی طریقۂ کار واضح کیے بغیر حتمی فیصلے مشکل ہیں۔
حماس کا ردِعمل اور فلسطینی اتفاقِ رائے کی ضرورت
ترک نشراتی ادارے انادولو کو دیے گئے انٹرویو میں شیخ محمد نے بتایا کہ دوحہ کو تاحال حماس کی جانب سے اس منصوبے پر کوئی رسمی جواب موصول نہیں ہوا کیونکہ اس معاملے کے حتمی فیصلے کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ قطر اور مصر نے پیر کے اجلاس میں حماس کو واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اصل مقصد جنگ کی روک تھام ہے اور اسی پر توجہ مرکوز رکھی جانی چاہیے۔
منصوبے کے اصولی نکات اور تفصیلی گفت و شنید کی ضرورت
قطری وزیرِ اعظم نے واضح کیا کہ کل پیش کیا گیا منصوبہ اصولی نکات پر مبنی تھا مگر ان نکات کے عملی نفاذ، نگرانی کے طریق کار اور تکنیکی جزئیات پر تفصیلی بات چیت باقی ہے۔ ان کے بقول یہ مرحلہ اہم ہے اور ایسے مذاکرات کا حصہ ہے جن سے فوری اور قطعی معاہدہ ممکن نہیں بن پائے گا؛ اس لئے عمل کو آگے بڑھانا اور اسے مؤثر بنانا ضروری ہے۔
فلسطینی عوام کی فلاح و بحالی پر زور
شیخ محمد نے کہا کہ قطر کی اولین ترجیح غزہ میں فلسطینی عوام کی تکالیف کا خاتمہ ہے—بالخصوص جنگ، قحط، قتل و غارت اور جبری بے دخلی کو روکنا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوحہ اس مقصد کے لیے زمینی اور سفارتی دونوں سطحوں پر کوشاں ہے تاکہ فوری انسان دوستانہ رسد اور طویل مدتی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔
منصوبے کا خلاصہ اور خدشات
امریکی منصوبے کے مطابق جنگ بندی کے بدلے اس کی شرائط میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے متعدد فلسطینی قیدیوں کی رہائی، حماس کی عسکری قوتوں کو غیر مسلح کرنا، اسرائیلی فوج کا بتدریج واپس بلانا اور غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کا قیام شامل ہے۔ منصوبے میں فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے امکانات کا ذکر تو ہے مگر ان کیلئے واضح ضمانتیں موجود نہیں، جس پر علاقائی حکومتوں اور فلسطینی حلقوں میں خدشات پائے جاتے ہیں۔
علاقائی اور عالمی رابطے اور دو ریاستی حل
وزیرِ اعظم نے کہا کہ عرب و اسلامی ممالک نے اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر برقرار رہیں اور دو ریاستی حل تک پہنچنے کے مواقع برقرار رہیں۔ قطر اس عمل میں ثالثی اور رابطہ کاری جاری رکھے گا تاکہ مختلف فریقین کے مابین اعتماد اور عملی تفصیلات پر اتفاق ممکن ہو سکے۔
Comments are closed.