امریکی عدالت اور انتظامیہ میں ٹکراؤ: ٹرمپ حکومت نے عدالتی حکم کو مسترد کر دیا

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک غیر معمولی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کو انتظامیہ کے اقدامات روکنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک وفاقی عدالت نے وینزویلا کے ایک بدنام گینگ سے تعلق رکھنے کے شبہ میں 200 سے زائد افراد کی ملک بدری روک دی تھی، لیکن اس کے باوجود انتظامیہ نے انہیں ملک بدر کر دیا۔

عدالتی حکم اور انتظامیہ کا ردعمل

وفاقی جج جیمز بواسبرگ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایلین اینیمیز ایکٹ کے تحت جنگ کے وقت کے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان افراد کو ملک بدر نہیں کر سکتی۔ ان افراد پر الزام تھا کہ ان کا تعلق وینزویلا کے خطرناک گینگ ٹرین ڈی آراگوا سے ہے، جو اغوا، بھتہ خوری اور کنٹریکٹ کلنگ میں ملوث ہے۔

تاہم، وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
“ایک شہر میں ایک جج ہوائی جہاز کی نقل و حرکت کی ہدایت نہیں کر سکتا۔ یہ ایسا شہر ہے جو غیر ملکی دہشت گردوں سے بھرا ہوا ہے، اور انہیں امریکی سرزمین سے مؤثر طریقے سے نکال دیا گیا ہے۔ عدالت کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، اور عام طور پر وفاقی عدالتوں کے پاس صدر کے خارجہ امور میں مداخلت کا دائرہ اختیار نہیں ہوتا۔”

آئینی بحران اور عدلیہ کی آزادی پر سوالات

یہ صورتحال امریکی آئین میں دیے گئے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر انتظامیہ عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کرتی ہے، تو اس سے عدلیہ کی خودمختاری اور آئینی اصولوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا ان کی انتظامیہ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے، تو انہوں نے معاملہ اپنے وکلا کے حوالے کر دیا۔ تاہم، انہوں نے ملک بدر کیے گئے افراد کے بارے میں کہا:
“میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں: یہ برے لوگ تھے۔”

نتائج اور آئندہ کے امکانات

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں قانونی جنگ مزید بڑھ سکتی ہے، اور عدلیہ انتظامیہ کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔ تاہم، اگر ٹرمپ انتظامیہ اپنی پالیسی پر قائم رہی، تو اس سے آئندہ کے لیے ایک خطرناک نظیر قائم ہو سکتی ہے، جہاں عدالتی احکامات انتظامیہ کے لیے بے اثر ہو جائیں گے۔

Comments are closed.