اداروں سے نہیں کچھ افراد سے شکایت ہوسکتی ہے، مولانا فضل الرحمان

جتنا طاقتور سے طاقتور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا، مولانا فضل الرحمن

پشاور: پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ تھا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے۔ وزیراعظم اپنے تمام ماتحت اداروں سے مل کر کام کر رہے ہیں، ہمیں اداروں سے نہیں کچھ افراد سے شکایت ہوسکتی ہے۔ کیا سارے فیصلے تین جج ہی کریں گے۔

پشاور میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج پتا چلا چینج رجیم کون ہے، کہتا ہے بین الاقوامی طاقت کے ذریعے نکالا گیا، آپ کونکالا نہیں عالمی طاقت کے ذریعے لایا گیا تھا، مجھے افسوس ہے اشرافیہ کے گھروں سے ان کو سپورٹ ملی۔ اس کو اقتدارسے اتارنا کافی نہیں، نام ونشان کو بھی مٹانا ہے، ہتھیار نہیں ڈالنے، سیاسی، آئین کی جنگ لڑنی ہے، اگر کوئی طاقت نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرے تو پہلے علما کرام کا رول بنتا ہے، اگرکوئی علماکرام اس کے ساتھ ہے تو وہ چھٹی انگلی ہے جس کو کاٹ کرپھینک دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدلیہ ایک ادارہ ہے، عدلیہ کا احترام ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں، اگرایک جج اپنے رویے سے متنازع بن جائے اور ایک فریق کو تحفظ دے تو اس کے بڑے دورس نتائج ہوں گے، اسی سے ریاستیں تباہ اور ٹوٹ جاتی ہیں، اداروں کے اندر کے لوگوں نے منظم طریقے سے ہمارے خلاف جھوٹے کیسز بنائے، ہم نے کہا اگرہمارے خلاف کوئی فائل آئی تو تمہارے منہ پر مار دیں گے، آج یہ لوگ ہمیں آزادی کا درس دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ نئی نسل کوآزادی کا درس دے رہا ہے، برطانیہ میں اسرائیلی امیدوارکے لیے ووٹ مانگنے والا آزادی کی بات کرتا ہے، فارن فنڈنگ میں اسرائیل، بھارت سے پیسہ آیا، تمہیں امریکی قونصلیٹ گھرکا کرایہ دیتا رہا پھربھی آزادی کی بات کرتے ہو، جس کی کابینہ میں دہری شہریت والے ہووہ ہمیں آزادی کا درس دیتا ہے، ہم جانتے ہیں آزادی کسے کہتے ہیں، آزادی کا درس میرے اورغلامی کا درس تیرے پاس ہے، مجھے آباواجداد اورتیرے آباواجداد کا بھی پتا ہے، سن لو! کسی بھی ادارے میں جتنا بھی طاقتورکوئی ہے تو کسی طاقتور کے رعوب کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پگڑیاں سرجھکا کر نہیں سراٹھا کر چلنے کے لیے پہنی ہیں، جلسوں میں کہا تھا ملک کو تباہ کر دیا گیا،آج ہم محسوس کر رہے ہیں ہمیں کس دلدل میں پھنسایا گیا، امریکا کے ساتھ ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، امریکا پاکستان کا دوست ہو کر بھی اقتصادی مشکلات کیوں پیدا کر رہا ہے، چارسال کی دلدل سے نکلنے کے لیے چارماہ کافی نہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے، وزیراعظم اپنے تمام ماتحت اداروں سے مل کر کام کر رہے ہیں، ہمیں اداروں سے نہیں کچھ افراد سے شکایت ہوسکتی ہے، کیا سارے فیصلے تین جج ہی کریں گے۔ جتنا طاقتور سے طاقتور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا۔

Comments are closed.