اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیدیا۔ عدالت نے 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کو اب بھی جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ کو نہ تو کوئی افسوس ہے اور نہ ہی پچھتاوا۔عدالت جو امید کرہی تھی عمران خان کا جواب ویسا نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔عمران خان کے عدالت سے توہین عدالت کا کیس بند کرنے کی استدعا کی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرینگے۔ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی،کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے۔اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے۔توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا یہ لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہونگے اور یا عدالتوں میں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے لکھا کہ اگر جج کے جذبات مجروح ہوئے،جج کے جذبات نہیں ہوتے، آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہو گا۔عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے کہ کئی بار بات اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی جتنی سمجھ لی جاتی ہے عمران خان نے شاید ایکشن کے لفظ کو درست طور پر نہیں کہا۔جسٹس بابر ستار نے سوال کیاکہ کیا توہین عدالت ایکٹ کے تحت لیگل ایکشن کو اس طرح پبلک میں کہا جا سکتا ہے؟حامد خان نے جواب دیا کہ ایکشن کا کہنا لازمی طور پر کسی کو دھمکانے کی کوشش نہیں ہوتی۔حامد خان نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔عمران خان کا مقصد جج زیبا چوہدری سے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنا نہیں تھا، حامد خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔مطلب کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں۔ جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ اگر ہم پانچ ججز کا فیصلہ عمران خان کو پسند نہیں آتا تو کیا یہ جلسے میں ہمیں کہیں گے کہ میں تمہارے خلاف ایکشن لوں گا؟
عمران خان کے وکیل خامد خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ بات ایک خاتون جج کے بارے میں کہی گئی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آج تک کسی لیڈر نے اپنے فالوور کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکا ہے؟اس سوشل میڈیا کا اصل شکار عدالتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریماکرس دیئے کہ اس طرح کی توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے ایک بار معاف کر دیا تھا تو بار بار معاف کیا جائے۔عمران خان اگر توہین آمیز الفاظ نہ کہتے تو آج یہاں کھڑے نہ ہوتے۔عدالتی معاون منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔توہین عدالت کی کارروائی معافی اور کنڈکٹ پر ختم ہو سکتی ہے۔۔۔منیر اے ملک نے بھی عمران خان کے جواب پر توہین عدالت کیس ختم کرنے کی استدعا کی۔دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کردے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں۔
عمران خان نے عدالت میں بات کرنے کی اجازت طلب کی تاہم چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کے وکلا دلائل دے چکے ہیں۔۔ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے حکم دیا کہ دو ہفتوں بعد عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائیگی۔
Comments are closed.