سی پیک کے پاکستانی معیشت پراثرات

پروفیسرعائشہ عالم

سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔سی پیک منصوبے کا آغاز 2015میں ہوا اس وقت سے لیکر آج تک تنقید کرنے والوں کی توپوں کا رخ اس منصوبے کی طرف رہا۔ 2015سے 2020تک کے اس سفر کی کامیابی کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستانی معیشت کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا ۔

عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے ۔ یہ منصوبہ پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے اور اکیسویں صدی کا اہم ترین اور گیم  چینجر منصوبہ ہے ۔ یہ منصوبہ پاکستان چین اور وسطی ایشیاءکو ملانے کا ایک اہم راستہ ہے ۔ عمران خان کی حکومت سی پیک کو ہر حال میں تکمیل تک لیکر جانا چاہتی ہے کیونکہ سی پیک پاکستان کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ حال ہی میں دونوں ملکوں نے گیارہ ارب ڈالر کے اہم منصوبوں پر دستخط کئے ۔ ان منصوبوں میں پاکستان ریلوے کا وہ منصوبہ بھی شامل ہے جو ابھی تک سی پیک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔ ایک عام تاثر 2015کے بعد یہی دیا جا رہا تھا کہ اس منصوبے سے پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ بجلی کی فراہمی سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور پسماندہ علاقوں کو ترقی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اس منصوبے سے گوادر ایک معاشی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ سی پیک کے ٹوٹل 88منصوبے منظور ہوئے اور ابھی تک انیس منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اٹھائیس منصوبوں پر کام جاری ہے اور اکتالیس منصوبے پائپ لائن میں ہیں ان پر کام باقی ہے ۔ پچھلے چھ سالوں میں 75000نوکریاں پیدا ہوئیں ۔

کورونا کے باوجود 47000کے قریب لوگ اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس میں چالیس ہزار پاکستانی اور سات ہزار چینی ورکر ہیں ۔ چائنہ کے مزدور کام کے لحاظ سے پاکستانی مزدوروں سے زیادہ ماہر ہیں جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں  نے اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لئے پاکستان کیساتھ  چینی  افرادی   قوت  سے  بھی استفادہ کیا ۔ 2030تک چوبیس لاکھ کے قریب نوکریاں ملیں گی دفاعی اور معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق 2050تک گوادر کی بندگارہ ملک کی ترقی میں شاندار کردار ادا کریگی اور ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ کے قریب افراد غربت کی زندگی سے باہر نکل سکیں گے ۔

پاکستان کے سب سے پسماندہ علاقے جن میں بلوچستان اور کے پی کے دور دراز اضلاع میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اس منصوبے کے تحت نو صنعتی زون لگائے گئے ہیں جو پسماندہ علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کریں گے ۔ اس منصو بے کے تحت بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے ملک کے اندر پندرہ سالوں سے جاری لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ بجلی نہ ہونے سے پاکستان کے اندر صنعتیں تباہ حالی کا شکار ہیں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سالوں میں پاکستان سے 40% ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہوئی ۔ پاکستانی ایکسپورٹ میں 95% کمی آئی اور بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ میں 14.05% اضافہ ہو ا ۔ اکے علاوہ سب سے بڑا مسلہ سڑکوں کی خستہ حالی کا تھا جسکی مرمت کے لئے ہر سال ایک ارب کے قریب قریب سرمایہ کی ضرورت تھی جو پاکستان جیسے ترقی پزید ملک کے لئے ایک بہت بڑا مسلہ تھا لیکن سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے یہ مسائل فوری طور پر حل ہو چکے ہیں کیونکہ اس منصوبے کے تحت تعمیراتی ڈھانچے کو ذیادہ اہمیت دی گئی۔ یہ منصوبہ جو چھیالیس بلین ڈالر سے شروع ہوا اب تک 69بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔ راولپنڈی سے خنجراب تک آٹھ سو بیس کلو میٹر کی آپٹک فائبر بچھانے سے انٹر نیٹ اور بین الاقوامی دنیا سے رابطے کا متبادل زریعہ دستیاب ہوا ہے ۔ اس سے پہلے زیر زمین آپٹک فائبر پر ہمیں امریکا اور انڈیاپر انحصار کرنا پڑتا تھا اور یہ پاکستان کے لئے ایک سیکیورٹی رسک تھا کیونکہ بھارتی اور امریکی پاکستان کے احساس معلومات چوری کرتے تھے لیکن اب چین کی طرف سے مہیا کردہ اس پائیدار نظام سے اس حساس مسلئے پر قابو پا لیا گیا ہے ۔

پاکستان کی سڑکوں کی طرح پاکستان کی ریلوے کا نظام بھی خستہ حالی کا شکار ہے ریلوے نظام 150سال پرانا انگریز کے دور سے بنا ہوا ہے لیکن سی پیک کے تحت نئے ٹریک بنائے جا رہے ہیں جیسے ML-1کا نام دیا گیا ہے ۔ایم ایل ون ٹریک 1872کلو میٹر طویل ہو گا ایک سو ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 33نئی اور جدید بسیں چلائی جائیں گی یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہو گا ۔دوسرا مرحلہ بڑے منصوبوں کے قیام کا ہے ۔ نو صنعتی زون بنائے جائیں گے جو چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد ، کشمیر اور گلگت میں بنائے جائیں گے ۔فیصل آباد کے اندر علامہ اقبال انڈسٹریل پارک تین لاکھ سے ذیادہ نوکریاں پیدا کرے گا ۔ صنعتی زون کے قیام سے پاکستان کے اندر صنعتی انقلاب آئے گا وفاقی حکومت نے گوادر پورٹ کو تئیس سال کے لئے انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے استشنا دے کر آزاد تجارت کا مرکز قرار دیا ہے ۔ 41 چائینیز کمپنیوں نے گوادر میں 77ارب روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اس کے علاوہ گوادر میں پاکستان کے سب سے بڑے ائیر پورٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے جو چار سو تیس ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ نئے ہسپتال ، ٹیکنیکل کالجز کی تعمیرا ت کا کام بھی جاری ہے۔ دوسرے مرحلے کے تحت پاکستا ن کی زراعت ادویات صحت اور تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ان منصوبوں سے دو سو ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا یعنی کہا جا سکتا ہے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانا ت ذیادہ ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر سی پیک سے پہلے سرمایہ کاری اور تعمیراتی شعبوں میں پسماندگی اپنے عروج پر تھی بجلی کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی تھیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہاتھا ۔ ستمبر 2020کے پاکستان اور اپریل 2015کے پاکستان میں زمین و آسمان کا فرق ہے آج پاکستان تعمیر و ترقی کا روشن ستارہ بن کر ابھر رہا ہے ۔

بلوچستان جو ستر سالوں سے پسماندہ تھا آج بلو چستان کی عوام بھی سی پیک کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ گوادر نے جہاں پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں اضافہ کیا وہاں خطہ بلوچستان کی تقدیر بدل دی ۔ اسی طرح باقی صوبوں میں بڑی شاہراﺅں کی تعمیر سے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے امکانات روشن ہو چکے ہیں ۔ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے نئے نئے ڈیمز بن رہے ہیں جس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا ہے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے ۔اس منصوبے پر تنقید کرنے والے ا س منصوبے کی ترقی سے خوفزدہ ہیں جہاں جہاں سے یہ منصوبہ گزر رہا ہے وہاں وہاں ترقی کے امکانات روشن ہو رہے ہیں ۔ نومبر 2019میں امریکہ کی طرف سے سی پیک کو حدف تنقید بنانا اور بھارتی اور یورپی میڈیا کا پاکستان اور چین کے منصوبوں کے خلاف آئے دن کا پراپیگنڈہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اور چین امن کے ساتھ آگے بڑھے۔

Comments are closed.