پنجاب میں تباہ کن سیلاب، 14 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد متاثر

پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دریائے راوی، چناب اور ستلج میں شدید طغیانی کے باعث صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل گئی ہے۔ اب تک 14 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 1692 دیہات مکمل یا جزوی طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔

اموات اور زخمیوں کی تفصیلات

پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب بھر میں سیلاب کے نتیجے میں 25 اموات رپورٹ ہو چکی ہیں جبکہ خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکام کے مطابق جب تک سیلابی پانی سندھ میں داخل نہیں ہوتا، پنجاب ہائی الرٹ پر ہے اور سندھ حکومت کو بھی پیشگی اطلاع دے دی گئی ہے۔

متاثرین کی بحفاظت منتقلی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب تک 2 لاکھ 65 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ مجموعی طور پر 90 ہزار 348 افراد اور ایک لاکھ 54 ہزار 980 مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ 355 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں 1372 افراد مقیم ہیں، جبکہ 6 ہزار 656 متاثرین کو فوری طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔

دریائے چناب کی صورتحال

پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے چناب میں طغیانی کے نتیجے میں 991 دیہات متاثر ہوئے۔ ان میں سیالکوٹ کے 395، جھنگ کے 127، ملتان کے 124، چنیوٹ کے 48، گجرات کے 66، خانیوال کے 51، حافظ آباد کے 45، سرگودھا کے 41، منڈی بہاالدین کے 35 اور وزیرآباد کے 19 دیہات شامل ہیں۔

دریائے راوی کی صورتحال

راوی میں آنے والے سیلاب سے نارووال کے 75، شیخوپورہ کے 4 اور ننکانہ صاحب کا ایک گاؤں زیرِ آب آیا ہے۔ ان علاقوں سے 11 ہزار افراد اور 4500 مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے۔

دریائے ستلج کی صورتحال

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دریائے ستلج میں 361 دیہات ڈوب گئے ہیں۔ ان میں قصور کے 72، اوکاڑہ کے 86، پاکپتن کے 24، ملتان کے 27، وہاڑی کے 23، بہاولنگر کے 104 اور بہاولپور کے 25 دیہات شامل ہیں۔ ستلج کے متاثرہ علاقوں سے ایک لاکھ 27 ہزار سے زائد افراد اور 70 ہزار مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔

ریلیف آپریشن جاری

پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ متاثرین کو خوراک، ادویات اور رہائش فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں مزید امداد اور وسائل کی ضرورت ہے تاکہ بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے۔

Comments are closed.