امریکہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ امریکی صدور کو اپنے دورِ حکومت میں کیے گئے سرکاری اقدامات کے خلاف مجرمانہ الزامات کے مقدموں کا سامنا کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے دعوے سے متعلق ایک مقدمے میں اعلیٰ ترین عدالت نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدور اپنے دفتر کی “بنیادی” ذمہ داریاں نبھانے کے لیے فوجداری استغاثہ سے مکمل استثنیٰ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج الٹنے کی کوشش کے معاملے پر استغاثہ کی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری 2021 کو کانگریس کی عمارت پر اس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں موجودہ صدر جو بائیڈن کی سال 2020 کے انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
اب جب کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل ہیں اور سپریم کورٹ کے ٖفیصلے کا فوری طور پر اثر یہ ہو گا کہ ان کے خلاف وفاقی الزامات کا فیصلہ 2024 کے انتخابات سے پہلے نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ رواں سال ہونے والے امریکی الیکشن میں ری پبلیکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ہیں۔ اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ استغاثہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے قابل ہوں گے۔
نو ارکان پر مشتمل امریکی سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں نے ٹرمپ کے استثنیٰ کے فیصلے کے حق میں رائے دی جسے چیف جسٹس جان رابرٹس نے تحریری طور پر جاری کیا۔ عدالت عالیہ کے لبرل ونگ کے تین ارکان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
اس طرح ججوں کی اکثریت نے ٹرمپ کے خلاف ان کئی اقدامات کے لیے قانونی چارہ جوئی کو مسترد کر دیا جو انہوں نے انتخابات کے بعد کیے تھے۔ ان میں ٹرمپ کی جانب سے محکمۂ انصاف کے ایک اہلکار کو برخاست کرنے کی دھمکی دینا بھی شامل تھا۔
Comments are closed.