اسلام آباد : سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کی سماعت ختم ہوئی تو ان کے وکلا نے انہیں بتایا کہ اسد عمر کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا ہے تو عمران خان چونک کر سیدھے ہوئے اور بولے ’اسد کو بھی گرفتار کر لیا! کیوں؟‘
وکلاء سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’تم لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہ سب ہوا ہے تو میں عدالت کے سامنے بات کرتا۔عمران خان ملک کی موجودہ صورتحال ایک بار غصہ میں آئے کہ ’پہلے کیوں نہیں بتایا؟ مجھے یہ سب باتیں عدالت کو بتانے کی ضرورت تھی۔‘
عمران خان سے سوال ہوا کہ کیا آپ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر دھاوا بولے جانے کی مذمت کرتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’جب مجھے کچھ پتا ہی نہیں ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔‘
عمران خان نے کہا کہ جب وہ آئین کی بات ہی نہیں کرتے تو ان سے کیا مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ ہم الیکشن چاہتے ہیں اور وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ آئین تو کہتا ہے 90 دن میں الیکشن ہو۔ آئین بحال کریں پھر دیکھتے ہیں۔‘ میری ابھی تک کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں خواجہ حارث سے ہوئی ہے انھوں نے کچھ باتیں بتائی ہیں، لیکن وہ غیر سیاسی آدمی ہے کچھ زیادہ بات نہیں کرتے۔ عمران خان نے کہا کہ بحرحال خواجہ حارث نے نیب عدالت میں زبردست دلائل دیئے تھے۔ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ فوجی افسر پر لگائے گئے الزامات نہیں ہیں بلکہ حقائق ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ یہ تو نہیں معلوم لیکن میں جب لاہور سے نکلا تھا تو مجھے شک پڑ گیا تھا کہ یہ مجھے پکڑ لیں گے۔ اسی وجہ سے ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔ گرفتاری کے دوران میرے سر پر ڈنڈا مارا گیا لیکن نیب نے علاج کروایا تھا۔
نیب حکم نے کہا کہ سر اب آپ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں اس لیے ہمیں اجازت دیجئے۔ جس پر عمران خان مسکرائے اور کہا کہ چلو اللہ ہی حافظ ہے اب پتا نہیں تم سے کب ملاقات ہوگی؟ اللہ کرے نہ ہی ہو۔
اسی دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے ملاقاتیوں کی ایک فہرست دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ نام لکھے ہیں۔ ان ناموں میں خواجہ حارث، فیصل چودھری، سلمان صفدر، شعیب شاہین، بابر اعوان، بیرسٹر گوہر شامل تھے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے بشریٰ بیگم کو بلانا ہے۔ انھیں کیسے بلایا جائے؟ عمران خان نے سلمان صفدر کو اپنے ساتھ بٹھایا اور لسٹ میں بشریٰ بیگم اور ان کی دو میڈز کے نام شامل کرواتے ہوئے کہا کہ ان کو بلوا لیں۔
Comments are closed.