مشرق وسطیٰ میں پھیلی افرا تفری کے درمیان یورپی یونین اور چھ خلیجی ممالک کے رہنماؤں نے بدھ کے روز ایک سربراہی اجلاس کے لیے ملاقات کی جس میں ، یوکرین کی جنگ اور روس کے ساتھ تعلقات پر متفقہ موقف تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔
روس کا تذکرہ صرف اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے حوالے سے کیا گیا جس میں روسی جارحیت پر تنقید کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ یوکرین سے اپنی فوجیں نکا لے۔
گلوبل ساؤتھ یعنی بیشتر غریب ملکوں پر مشتمل کرے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے تنازعے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر یورپی یونین کے ممالک بار بار روس کا نام لیتے ہیں، لیکن غزہ میں اسرائیل کی جنگ میں انہی معیارات کو لاگو کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے کہا کہ قریبی تعلقات کا مطلب بین الاقوامی انصاف سے زیادہ سے زیادہ وابستگی اور دوہرے معیار کی پالیسیوں سے دوری ہونا چاہیے۔
بیلجیئم کے وزیر اعظم الیگزینڈر ڈی کرو نے کہا کہ سربراہی اجلاس طویل التواء”کے بعد عمل میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا “یورپی یونین اور خلیجی ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے کہا،کہ پیش رفت ہوئی ہےتاہم ان میں میں آگے بڑھنے کی بہت صلاحیت ہے۔”
27 ملکوں پر مشتمل یورپی یونین، مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں جاری تنازعوں سے نمٹنے کے لیے ،خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ مزید قریبی طور پر کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں.
سربراہی اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان میں، دونوں فریقوں نے کہا کہ وہ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر 35 سال قبل شروع کیے گئے مذاکرات کو بحال کریں گےجو 2008 میں معطل ہوگئے تھے۔
اس مشترکہ بیان میں دو سالہ سربراہی اجلاس کا انعقاد بھی شامل ہے، آئندہ اجلاس 2026 میں سعودی عرب میں ہوگا۔
یورپی یونین نے لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
Comments are closed.