بحیرہ روم میں سفر کےدوران ہنگامی صورتحال میں رہنمائی اور مدد فراہم کرنے والے ادارے’’الارم فون‘‘نے غیرقانونی تارکین وطن کی کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں، تازہ رپورٹ میں تارکین وطن کو قتل کرنے، اطلاع کے باوجود یورپی اداروں کے مدد کیلئے نہ پہنچنے اور لوگوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دینے کے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سمندر کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے غیرقانونی تارکین وطن کے حوالے سے’’الارم فون‘‘ کی جاری تازہ رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں، آزاد ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس 13 سے 20 اگست کے درمیان 14 کشتیوں کے ذریعے 900 کے قریب افراد نے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کی۔
رپورٹ کے مطابق ان 900 میں سے 540 کو یورپی ممالک کے ساحل تک پہنچنے میں کامیابی ملی جب کہ مختلف حادثات میں 100 افراد ہلاک اور 160 لاپتہ ہو ہو گئے جب کہ 100 کو واپس لیبیا بھجوا دیا گیا، اس دوران مزید 200 کے قریب افراد کے سفر کا بتایا گیا ہے تاہم انوں نے براہ راست اس ادارے سے رابطہ نہیں کیا۔
ہر سال کی طرح لیبیا کے ساحلی علاقوں سے یورپ کی طرف جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کی متعدد کشتیاں ڈوبنے کے واقعات پیش آئے ہیں،17 سے 20 اگست کے دوران چار کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات کی تصدیق ہو چکی، جس کے بعد متعدد افراد کی لاشیں بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں سے ملی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام کشتیوں کو ڈوبنے، تباہ ہونے اور قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا تھا کیونکہ ’’الارم فون‘‘ کی جانب سے دو کشتیوں کی باقاعدہ اطلاع متعلقہ حکام کو فراہم کی گئی، لیکن انہوں نے کوئی اقدام اٹھانے کی بجائے لوگوں کو سمندر میں ڈوب کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 16 اور 17 اگست کو بہتر مستقبل کے خواب سجائے یورپ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی کشتی کا تباہ ہونا کوئی حادثہ نہیں تھا، کشتی کی تباہی سے قبل 5 افراد کے ایک گروہ نے معصوم اور نہتے افراد پر گولیوں کی بوچھاڑ کی، جس کے بعد غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی کو آگ لگ گئی، اس واقعہ میں 45 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جب کہ بعض کو مقامی مچھیرے نے بچایا۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین (یواین ایچ سی آر) اور ہجرت کرنے والوں کے حوالے سے بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے دعووں کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بدقسمت کشتی 15 اگست سے یورپ کیلئے سفر کر رہی تھی، ہنگامی صورتحال میں انہوں نے بارہا مدد کیلئے کالز کیں، ابتدائی معلومات کے مطابق کشتی پر 65 افراد سوار تھے، تاہم اس واقعہ میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ ان کی مجموعی تعداد 82 تھی،’’الارم فون‘‘ کی جانب سے حکام کو آگاہی کے باوجود کوئی بھی ڈوبنے والوں کی مدد کے لئے نہیں آیا۔
حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص کہنا تھا کہ ’’یورپین حکام لوگوں کو ڈوب کر مرنے کیلئے چھوٹ دیتے یا واپس لیبیا بھجوا دیتے ہیں کیونکہ یہ ان کے آسان ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا، ہم ڈوب رہے تھے، کشتی میں ہر طرف آگ لگی تھی، ہمیں کوئی بچانے نہیں آیا، حالانکہ کچھ جہاز ہمیں بچا سکتے ہیں، لیکن شکر ہے کہ ایک مچھیرے نے ہماری جانیں بچائیں اور ہم ابھی تک زندہ ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں میں زیادہ تر کو قید کر دیا گیا جب کہ بعض کو چھوڑ دیا گیا ہے تاہم ان میں سے بیشتر کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ کشتی میں آگ لگنے سے کئی افراد کے جسم کے کئی حصے مکمل جل یا جھلس چکے ہیں۔
ایک اور کشتی ڈوبنے کا واقعہ 18 اگست کو پیش آیا یہ ربڑ کی بڑی کشتی تھی جس پر 95 افراد سوار تھے، سمندر کی تیز لہروں میں ڈگمگاتی کشتی پر سوار افراد نے 18 اگست کی صبح مدد کیلئے ’’الارم فون‘‘ کو کالز کی، فون پر بات کے دوران ہی ربڑ کی کشتی کے پھٹنے کی آواز سنائی دی۔
اس حادثے کی فوری طور پر لیبیا، اٹلی اور مالٹا کے متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی لیکن کسی نے کارروائی نہیں کی اور دوسرے روز معلوم ہوا کہ ماہی گیروں کی ایک کشتی نے اس حادثے کے بعد 65 افراد کی جانیں بچائیں، جب کہ 30 افراد لقمہ اجل بنے یا لاپتہ ہوگئے۔
اس سے قبل 15 اگست کو 40 افراد کو یورپ کی طرف لے جانے والی کشتی لیبیا کے ساحل کے قریب ہی ڈوب گئی تھی جس میں سے صرف ایک شخص زندہ بچا۔ کشتی ڈوبنے کا چوتھا واقعہ 18 اگست کو پیش آیا جہاں پر جدریہ کے قریب تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے 3 افراد ڈوب گئے جب کہ 15 کو تیونس کی کوسٹ گارڈ نے بچا لیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ عرصے کے دوران پیش آنے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نام نہاد لیبیا کی کوسٹ گارڈ جو کہ تارکین وطن کی کشتیوں کو یورپین سرچ اینڈ ریسکیو زون میں داخلے سے پہلے تحویل میں لے لیتی ہے اور بعض اوقات غیرقانونی طور پر ایسی کشتیوں کو مالٹا کے سرچ اینڈ ریسکیو زون سے واپس بھجوا دیا جاتا ہے، لیکن جب انہیں مصیبت میں پھنسے افراد کو بچانے کیلئے کہا جاتا ہے تو وہ اپنی حدود میں لوگوں کو ڈوبنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں کہ رواں برس غیرقانونی تارکین وطن کی کشتیوں اور جہازوں کو تباہ کن حادثات لیبیا کی سمندری حدود میں پیش آئے، ان میں 9 فروری کا حادثہ بھی شامل ہے جس میں 91 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔اس کے ساتھ 29 کو ایسے ہی ایک حادثے میں 40 افراد لاپتہ ہوئے جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
Comments are closed.