امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں تقریباً دو برس سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔ اس منصوبے میں قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے، جبکہ غزہ کو غیر مسلح کرنے اور اس کی انتظامی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
یورپی یونین کا ردِعمل
یورپی کمیشن کی صدر اورسولا فان ڈیئرلائن نے اس منصوبے کو خوش آئند قرار دیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ “دو ریاستی حل ہی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان منصفانہ اور پائیدار امن کا واحد راستہ ہے”۔ انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ان کے مطابق یورپی یونین اس امن عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
منصوبے کی اہم شقیں
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ 20 نکات میں سب سے نمایاں شرط غزہ کی مکمل غیر عسکری حیثیت ہے۔ اس کے بعد ایک عبوری انتظامی کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس اور عالمی ماہرین شامل ہوں گے۔ اس کمیٹی کو “کمیٹی برائے امن” کے نام سے جانا جائے گا، جس کی قیادت خود ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر سمیت دیگر عالمی رہنما بھی اس کمیٹی کا حصہ بنیں گے۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے فنڈنگ کو منظم کرے گا اور فلسطینی اتھارٹی کے اصلاحی پروگرام مکمل ہونے تک عبوری انتظام سنبھالے گا۔
عالمی ردِعمل اور خطے کی صورتحال
کئی عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے امن کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ تاہم فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ منصوبے کا تفصیلی جائزہ لے گی اور اپنی رائے پیش کرے گی تاکہ فلسطینی عوام کے مفادات کو یقینی بنایا جا سکے۔
فوری اقدامات پر زور
اورسولا فان ڈیئرلائن نے مزید کہا کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے، غزہ کے عوام کو ہنگامی انسانی امداد فراہم کی جائے اور تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یورپی یونین اس موقع پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور امن قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.