اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت نے خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کے خلاف بڑا فیصلہ سناتے ہوئے اس عمل کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ عدالت نے ایسے افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی ہدایت جاری کر دی جو خواتین کو ان کے شرعی وراثتی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔
“چادر اور پرچی” جیسی روایات کو مسترد کر دیا گیا
عدالت کو بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں، خصوصاً بنوں میں “چادر اور پرچی” جیسی روایات کے ذریعے خواتین کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تاہم، خیبرپختونخوا حکومت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ رسم و رواج نہ تو رائج ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔
“زمانہ جہالت کی روایت اسلام میں قابل قبول نہیں”
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ قبل از اسلام، زمانہ جہالت میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا، لیکن اسلام نے اس روایت کو ختم کر دیا۔ شرعی اصولوں کے مطابق، خواتین کو وراثت میں ان کا جائز حصہ دینا فرض ہے اور اس سے انکار اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
فیصلہ چار رکنی بینچ نے سنایا
جسٹس اقبال حمید الرحمان کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے فوزیہ جلال شاہ کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ خواتین کے وراثتی حقوق پر کوئی قدغن یا روایتی پابندی قبول نہیں کی جا سکتی۔
قانونی و سماجی اثرات
اس فیصلے کو خواتین کے حقوق کے تحفظ میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان میں وہ علاقے اور برادریاں متاثر ہوں گی جہاں خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عدالت کے فیصلے کے بعد حکومت اور متعلقہ اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرائیں اور ایسے رسم و رواج کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
Comments are closed.