فرانس نے ہفتے کے آغاز میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا، جس پر اسرائیلی حکومت نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یروشلم میں فرانسیسی قونصل خانہ بند کرنے کی دھمکی بھی سامنے آئی ہے۔ اس اقدام کو اسرائیلی ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے اس حوالے سے ریڈیو فرانس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ “میں نہیں سمجھتا کہ اسرائیل اس حد تک جائے گا، اور اگر اس نے ایسا کیا تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔” یہ انٹرویو انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دیا۔
عالمی تناظر اور دیگر ممالک کی شمولیت
فرانس کے علاوہ حالیہ دنوں میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی مغربی ممالک نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب غزہ اور مغربی کنارے میں جاری جنگی صورتحال نے عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف شدید تنقید کو جنم دیا ہے۔
اسرائیلی ردعمل اور خطے پر اثرات
اسرائیل نے اس فیصلے کو اپنے قومی مفادات کے خلاف قرار دیا ہے اور اسے سفارتی سطح پر “غیر ذمے دارانہ” اقدام کہا ہے۔ اسرائیلی حکام کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بجائے مذاکرات اور سلامتی کے اقدامات کو آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق اگر اسرائیل نے واقعی فرانس کا قونصل خانہ بند کیا تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
فلسطینی عوام کا خیرمقدم
فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں نے فرانس اور دیگر ممالک کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کے دیرینہ مطالبے کی بین الاقوامی سطح پر بڑی کامیابی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران ان فیصلوں کو “امن کی بحالی کے لیے درست سمت کا قدم” قرار دیا۔
مستقبل کے امکانات
سفارتی ماہرین کے مطابق، مزید یورپی ممالک بھی جلد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل اور یورپ کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب امریکہ اب بھی اس معاملے پر محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور اس نے فی الحال فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔
Comments are closed.