امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیم حماس “بہت ہی اہم امور پر متفق ہو گئی ہے”۔ یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب مصر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں تاکہ دو سال سے جاری غزہ کی جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
امریکی صدر کا بیان اور شرائط
وائٹ ہاؤس میں ایک صحافی کے سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ “میرے پاس کچھ سرخ لائنیں ہیں، اگر وہ پوری نہ ہوئیں تو ہم آگے نہیں بڑھیں گے”، تاہم ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات مثبت سمت میں جا رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ حماس کئی اہم امور پر رضامند ہو چکی ہے۔
معاہدے کی امید اور ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ
امریکی صدر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ معاہدے کے حوالے سے امید ظاہر کی اور کہا، “مجھے لگتا ہے کہ ہم غزہ میں امن معاہدے تک پہنچ جائیں گے”۔ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تحت جاری ہیں، جس میں جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا تدریجی انخلا اور حماس کے ہتھیار جمع کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
نیتن یاہو کے کردار پر وضاحت
ٹرمپ نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر کسی قسم کا منفی رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق نیتن یاہو “معاہدے کے حوالے سے بہت مثبت ہیں”۔
حماس کا موقف
دوسری جانب حماس نے ٹرمپ کے منصوبے پر اپنے جواب میں واضح کیا کہ وہ غزہ کے مستقبل پر کسی بھی بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن اسرائیل کے مکمل انخلا پر اصرار کرتی ہے۔ حماس نے ہتھیار جمع کرنے کے معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
امریکی منصوبے میں حماس کے لیے غزہ کی انتظامیہ میں کسی براہِ راست کردار کی گنجائش نہیں رکھی گئی، بلکہ اس کے جنگجوؤں کے انخلا کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
Comments are closed.