دورہ برلن کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر شولس، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں جاری بحران پر بھی تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
بائیڈن کی برلن آمد سے ایک روز قبل خطے میں کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی، جب اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو ہلاک کر دیا۔
برلن میں چانسلر شولس کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ یحییٰ سنوار کے ہاتھوں پر اسرائیلیوں، فلسطینیوں، امریکیوں، جرمنوں اور بہت سی دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خون تھا۔
بائیڈن نے کہا کہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ اس موقع کو ’’حماس کے بغیر غزہ کو امن کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کریں۔‘‘
جرمن چانسلر شولس نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ’’اب جنگ بندی اور غزہ سے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے ٹھوس امکانات روشن ہوں گے۔‘‘
شولس نے زور دے کر کہا، ’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ میرے لیے یہ بات واضح طور پر کہنا ضروری ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
امریکی صدر بائیڈن نے ’اسرائیل کے خلاف سامیت دشمنی، نفرت اور بڑھتی انتہا پسندی‘کے خلاف ثابت قدمی سے کھڑے ہونے پر چانسلر شولس کی حکومت کی تعریف بھی کی۔
Comments are closed.