حماس جنگ بندی کے جامع معاہدے کے لیے تیار، اسرائیل نے تجویز مسترد کر دی

فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے۔ اس بیان سے خطے میں ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید طویل عرصے سے جاری خونریزی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ حماس کے ترجمان کے مطابق تنظیم قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی پیشکش کو قبول کرنے پر آمادہ ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کا مطالبہ

یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر تمام قیدی آزاد ہو جائیں تو حالات تیزی سے بدل سکتے ہیں اور جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی فوجی آپریشن میں تیزی

دوسری جانب اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے بدھ کو اعلان کیا کہ غزہ میں آپریشن “عربات جدعون” کا دوسرا مرحلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مرحلے کا مقصد لڑائی کو مزید تیز اور زمینی کارروائی کو گہرا کرنا ہے تاکہ جنگ کے اہداف جلد از جلد حاصل کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی اخلاقی اور قومی فریضہ ہے، اور حماس کو شکست دینے تک فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

نیتن یاھو کا انکار

قطری ثالث کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے پیش کی گئی تازہ ترین تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ حماس نے اس تجویز پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اس انکار نے امن کی امیدوں کو ایک بار پھر دھندلا دیا ہے۔

خطے میں بڑھتا ہوا بحران

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حماس کی جانب سے آمادگی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اسرائیلی حکومت کی سخت پالیسیوں کے باعث صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ غزہ پہلے ہی انسانی المیے کا شکار ہے جہاں ہزاروں شہری جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور بنیادی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔

Comments are closed.