حماس نے اسرائیل کی تجویز کو مسترد کر دیا، فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر ڈیڈلاک برقرار

غزہ: فلسطینی تنظیم حماس نے ان بالواسطہ مذاکرات میں پیش کی گئی اسرائیلی تجویز کو مسترد کر دیا ہے جو غزہ کی پٹی میں فائر بندی کے دوبارہ آغاز اور اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے لیے جاری تھے۔ یہ بات حماس کے دو سینئر ذمے داران نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتائی۔

حماس کا مؤقف: اسرائیل مذاکرات سبوتاژ کر رہا ہے

ایک حماس ذمے دار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بتایا کہ “حماس نے وساطت کاروں کے ذریعے پیش کی گئی اسرائیلی تجویز پر جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ قابض قوت مصری-قطری تجویز کو ناکام بنا کر کسی بھی سمجھوتے کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔”

دوسری جانب، حماس کے ایک رہنما نے عالمی برادری اور وساطت کاروں سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو ان شرائط کا احترام کرنے پر مجبور کریں جن پر وہ پہلے دستخط کر چکا ہے اور مذاکرات کو مثبت انداز میں آگے بڑھائے۔

مصری-قطری تجویز: 50 روزہ فائر بندی اور قیدیوں کا تبادلہ

حماس کے ایک سینئر مذاکرات کار نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ تنظیم غزہ میں فائر بندی کے لیے وساطت کاروں کی طرف سے پیش کی گئی نئی تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

حماس کے ایک ذمے دار کے مطابق، مصری-قطری تجویز میں 50 روزہ فائر بندی کی پیش کش شامل تھی، جس کے تحت:

حماس پانچ اسرائیلی فوجیوں کو رہا کرے گا، جن میں ایک امریکی شہریت کا حامل ہے۔

اسرائیل 250 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا، جن میں 150 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اسرائیل سات اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے 2000 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کرے۔

اسرائیلی فوج کے انخلا اور انسانی امداد کی بحالی کا مطالبہ

حماس کی منظور کردہ تجویز میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ:

اسرائیلی فوج غزہ کے ان علاقوں سے انخلا کرے جہاں 18 مارچ کو اس کی ازسرنو تعیناتی عمل میں آئی تھی۔

غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل بحال کی جائے، جسے اسرائیل نے 2 مارچ سے مکمل طور پر بند کر رکھا ہے۔

مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار

اسرائیل کی طرف سے نئی شرائط عائد کرنے پر حماس نے ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد فریقین کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔ تاہم، سفارتی حلقے مذاکرات کے کسی مثبت نتیجے تک پہنچنے کی امید کر رہے ہیں۔

Comments are closed.