کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے؟سپریم کورٹ

 اسلام آباد: سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوئی ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں نہیں ،صرف دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔ آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے، آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا ، اس لیے نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسرنو سماعت کرنا ہوگی،آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 184 (3)میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا نظرثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل واتی نے دلائل میں کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں نہیں ،صرف دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا ۔ آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ بنیادی حقوق کیلئے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے، آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔ وکیل نے کہاکہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کاروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اگر انتخابات کا مقدمہ ہائیکورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ہائیکورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراض کرتی رہی ہے؟ کبھی فل کورٹ کبھی چار تین کا نکتہ اٹھایا گیا،جو باتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں؟ کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مؤقف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسرنو سماعت کرنا ہوگی۔آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا آئین میں دائرہ کار محدود بھی نہیں کیا گیا۔ نظرثانی میں عدالت کو مکمل انصاف کیلئے آرٹیکل 187 کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے ۔عدالت نے مزیدسماعت بد ھ تک ملتوی کردی۔

 تحریک انصاف کا جواب

دوسری جانب تحریک انصاف نے اپنے جواب  میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئےکہا ہےکہ نظر ثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے نوے دن میں انتخابات کے لیے ڈیڈلائن مقرر کی، الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا۔الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، 90 دنوں میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے، آرٹیکل218 کی روشنی میں آرٹیکل224 کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، آئین میں نہیں لکھا کہ تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، پی ٹی آئی نے کہاکہ آرٹیکل254 کے لیے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل224 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا۔۔

 وفاقی حکومت اور نگران حکومت کا جواب

وفاقی حکومت نے فیصلے پرنظرثانی کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کر دیا، پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونےکا اندیشہ ہے۔نگران پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئےکہا ہےکہ الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار ریاست کے دیگر اداروں کو ہے، 14 مئی الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہیں دی۔

Comments are closed.