اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں راول جھیل کنارے نیوی کلب کی تعمیر کے معاملے پر پاک بحریہ کے سربراہ سے سات اگست تک جواب طلب کر لیا۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے راول جھیل کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت پاکستان نیوی کی جانب سے تحریری جواب جمع نہ کرائے جانے پر چیف جسٹس ہائی کورٹ نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جواب دینے کا کہا تھا کہ بتائیں کس قانون کے تحت آپ کلب بنا یا چلا سکتے ہیں؟ اس عدالت نے کہا تھا کہ کابینہ کو بتائیں اسلام آباد میں قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ کسی کو آگے سفارشات بھیجنے کے لئے نہیں کہا تھا۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایک عمارت بنی ہی غیر قانونی ہے اس پر سی ڈی اے اب کیا کر لے گا؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ معاملے پر اٹارنی جنرل کی رائے بھی مانگی گئی ہے، کابینہ نے سی ڈی اے کو اٹارنی جنرل سے مشاورت کی ہدایت کی۔
جس پر چیف جسٹس نے کسی غریب کا کھوکھا گرایا جائے تو اس پر کیا آپ اٹارنی جنرل کی رائے مانگیں گے؟ یہ عدالت بار بار کہہ چکی کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ عدالت نے معاملہ کابینہ کو اسی لئے بھیجا کہ اسلام آباد میں لاقانونیت کو دیکھ سکیں۔ میں نے کابینہ کو کہا تھا کہ اسلام آباد میں قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کے سربراہ سات اگست تک تحریری جواب جمع کرائیں کہ یہ سیلنگ کلب کس قانون کے تحت بنایا گیا۔ وزیراعظم کا سیلنگ کلب بنانے کی اجازت دینے کا اختیار کہاں ہے وزیراعظم نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ سی ڈی اے نے تکلفانہ ایک نوٹس بھیجا اور انہوں نے پھر بھی تعمیرات جاری رکھیں۔
بحریہ کے نمائندہ سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آپ غیرقانونی کام کرتے ہیں تو قربانیاں دینے والوں اوراپنے شہیدوں سے زیادتی کریں گے۔ مسلح افواج کی وردی ہمارے لئے قابل عزت اورلائق احترام ہے،اس وردی کی لاج رکھنا مسلح افواج کا ہی کام ہے۔
Comments are closed.