دریائے راوی کی صورتحال
پنجاب میں بہنے والے دریاؤں میں سب سے زیادہ دباؤ دریائے راوی پر ہے۔ جسڑ کے مقام پر جہاں سے بھارت سے پانی پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اس وقت اونچے درجے کا سیلاب ہے اور یہاں سے ایک لاکھ 21 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ لاہور کے قریب شاہدرہ پر صورتحال مزید سنگین ہے جہاں ایک لاکھ 90 ہزار کیوسک پانی کا ریلا بہہ رہا ہے۔
بلوکی ہیڈ ورکس پر بھی پانی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، یہاں 94 ہزار کیوسک سے زائد پانی گزر رہا ہے جبکہ اس کی صلاحیت 3 لاکھ 80 ہزار کیوسک ہے۔ سدھنائی ہیڈ ورکس پر پانی کی سطح فی الحال معمول کے مطابق ہے اور نو ہزار کیوسک کے قریب بہاؤ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
دریائے چناب میں خطرناک اضافہ
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے چناب پر پانی کا سب سے بڑا دباؤ قادرآباد ہیڈ ورکس پر ہے جہاں آٹھ لاکھ 13 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، جبکہ اس کی گنجائش آٹھ لاکھ 7 ہزار کیوسک ہے، یعنی اس کی صلاحیت سے زائد پانی ریلا بن چکا ہے۔
خانکی ہیڈ ورکس پر بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، یہاں سے چھ لاکھ 20 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ تاہم پانی کے دباؤ میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔
مرالہ ہیڈ ورکس پر بھی پانی کی سطح آٹھ لاکھ 13 ہزار کیوسک ہے، جو کہ گنجائش کے قریب ہے۔ تریموں پر 93 ہزار 500 کیوسک پانی ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور بہاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پنجند ہیڈ ورکس پر صورتحال نسبتاً قابو میں ہے، جہاں پانی کا بہاؤ 58 ہزار کیوسک ہے اور اس میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب
دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ والا ہیڈ ورکس پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب جاری ہے، جہاں 2 لاکھ 61 ہزار کیوسک پانی کا ریلا گزر رہا ہے۔
سلیمانکی ہیڈ ورکس پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور یہاں پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 9 ہزار کیوسک ہے، جبکہ گنجائش تین لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے۔
اسلام ہیڈ ورکس پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، جہاں 52 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، جبکہ اس کی صلاحیت تین لاکھ کیوسک ہے۔
مجموعی صورتحال اور اثرات
پنجاب کے تین بڑے دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ متعدد بستیاں زیر آب آ گئی ہیں، ہزاروں مکانات تباہ یا شدید متاثر ہوئے ہیں جبکہ کھڑی فصلیں بھی پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ ریسکیو ادارے مسلسل کام کر رہے ہیں مگر پانی کے دباؤ میں اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریاؤں پر دباؤ مزید بڑھنے کی صورت میں مزید علاقوں میں انخلاء کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
Comments are closed.