امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اہم دورے پر روانہ ہوگئے۔ روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ ختم ہوچکی ہے اور اب وہاں ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے قیام پر کام جاری ہے تاکہ پائیدار امن یقینی بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی برقرار رہے گی اور یرغمالیوں کی رہائی بھی طے شدہ وقت سے پہلے ممکن ہے۔
ٹرمپ کا پاکستان اور افغانستان سے متعلق بیان
صدر ٹرمپ نے ایک چونکا دینے والا بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اطلاعات ملی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ جاری ہے، اور وہ واپسی پر اس معاملے کو خود دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’جنگوں کو ختم کرنے‘‘ کے ماہر ہیں اور ایک بار پھر کوشش کریں گے کہ اس تنازع کو حل کیا جا سکے۔
بھارت، قطر اور نیتن یاہو کا ذکر
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں نے پاکستان اور بھارت کی جنگ ٹیرف کے ذریعے روکی تھی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بہت اچھا کام کیا، جبکہ قطر کو بھی غزہ امن کوششوں کا کریڈٹ ملنا چاہیے۔ یوکرین تنازع کے بارے میں انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جنگ ختم نہ ہوئی تو وہ یوکرین کو “ٹوم ہاک میزائل” فراہم کر سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے دورے کی تفصیلات
امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کا پہلا مرحلہ اسرائیل ہے، جہاں وہ رہا یرغمالیوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کریں گے، اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے اور فوجی و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس کے بعد وہ مصر کے شہر شرم الشیخ جائیں گے جہاں غزہ امن سمٹ منعقد ہوگی۔
غزہ امن سمٹ کی اہمیت
خبر ایجنسی کے مطابق شرم الشیخ میں ہونے والی اس کانفرنس میں 20 سے زائد ممالک کے سربراہان شریک ہوں گے۔ اجلاس میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی، جبکہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ سیکیورٹی تعاون کا منصوبہ بھی زیرِ غور آئے گا۔
علاقائی استحکام کی نئی کوششیں
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ دورہ نہ صرف غزہ میں امن معاہدے کی توثیق کے لیے اہم ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے حل کے لیے ممکنہ سفارتی کردار کا اشارہ بھی دیتا ہے۔
Comments are closed.