ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی حالیہ رپورٹ کو 13 جون کو ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے لیے “بہانہ” بنایا گیا۔ انہوں نے اس رپورٹ کو “سیاسی دباؤ” کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ IAEA کو صرف اپنے قواعد و ضوابط کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
تہران میں ایک پریس بریفنگ کے دوران بقائی نے اعلان کیا کہ ایران نے ایک قانونی کمیٹی تشکیل دی ہے جو بین الاقوامی اداروں کو اسرائیلی حملوں اور ان کے نتیجے میں ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں باقاعدہ رپورٹ پیش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بقائی نے واضح کیا کہ جب تک IAEA کے معائنہ کاروں کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاتی، ایران بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ معمول کا تعاون جاری نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان اب بھی رابطے قائم ہیں، اگرچہ آئندہ مذاکرات کی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔
IAEA کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران نے 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کی پیداوار میں تیزی لائی ہے، جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے معیار کے قریب ہے۔ ایران نے اس رپورٹ کو سیاسی مفادات پر مبنی قرار دیا۔
ایران کی سفارتی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ایران، امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر واپسی کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ واشنگٹن آئندہ مزید حملے نہ کرنے کی تحریری یقین دہانی دے۔
روانچی نے مزید کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ثالثوں کے ذریعے ایران سے رابطہ کیا ہے اور مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ امریکہ حملے روکنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔
یہ صورت حال ایران اور مغرب کے درمیان جاری کشیدگی میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایران خطے میں عسکری دباؤ اور سفارتی چیلنجز سے دوچار ہے۔
Comments are closed.