افغانستان پر حملہ کیا گیا تو اسلام آباد براہِ راست نشانہ ہوگا:طالبان حکام

افغان نیوز ایجنسی کے مطابق طالبان حکام نے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے حملہ یا مداخلت ہوئی تو فوری جوابی کارروائی کی جائے گی اور اسلام آباد کو براہِ راست نشانہ بنایا جائے گا۔ افغان فریق نے مذاکرات کے لیے سنجیدگی کا دعویٰ کیا مگر ساتھ ہی پاکستان پر سخت الفاظ اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کابل نے جوابی پالیسی واضح کر دی

افغان نیوز ایجنسی کے حوالے سے جاری بیان میں طالبان حکام نے کہا کہ اب جوابی حملوں کی پالیسی واضح ہے: اگر پاکستان سے کوئی حملہ ہوا تو فوری جواب دیا جائے گا، اور اگر افغانستان پر حملہ کیا گیا تو اسلام آباد براہِ راست نشانہ ہوگا۔ افغان حکام نے کہا کہ یہ موقف اُن کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے اور اس کا مقصد سرحد پار تنازعات کے دوران تلافی کو یقینی بنانا ہے۔

مذاکراتی دعوے مگر سخت مؤقف بھی

خبررساں ایجنسی کے مطابق افغان فریق مذاکرات کے لیے سنجیدہ اور پرعزم دکھائی دیتا ہے، تاہم مذاکرات کے دوران افغان حکام نے الزام بھی عائد کیا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات میں غیر سنجیدہ رویہ اپنایا۔ اس تناظر میں کابل نے اپنے سخت مؤقف اور جوابی پالیسی کا اطلاق مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی دھمکی دے دی۔

اشتعال انگیز تقاریب اور بیان بازی

حالیہ واقعات میں افغانستان میں منعقدہ پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران استعمال ہونے والے نغمات اور ترانوں میں پاکستان مخالف سخت الفاظ شامل تھے۔ خبروں میں کہا گیا کہ ان ترانوں میں اسلام آباد کو “آگ لگانے” اور لاہور میں “جھنڈے گرانے” جیسے اشتعال انگیز مناظر بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ طالبان کے بعض وزراء، بشمول نور اللہ نوری، نے مخصوص تاریخوں پر صوبوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی۔

ڈیجیٹل دھمکیاں اور پروپیگنڈا

طالبان انٹیلی جنس سے منسلک ڈیجیٹل میڈیا نے بھی متعدد بار اسلام آباد کے خلاف حملوں کی دھمکی دے کر ایک نفسیاتی اور اطلاعاتی دباؤ پیدا کیا ہے، جو سرحد پار کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

خطرات، اثرات اور خطے میں کشیدگی کے امکانات

کابل کی جانب سے براہِ راست نشانہ بنانے کے عندیے نے خطے میں کشیدگی کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ اگر عملدآمد ہوا تو اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی کارروائیاں، سرحدی جھڑپیں اور بڑے پیمانے پر انسانی و جغرافیائی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے یہ ایک تشویشناک پیش رفت ہے جسے سفارتی سطح پر فوری طور پر سنیپ لینے کی ضرورت ہوگی۔

ضرورتِ سفارتکاری اور عالمی توجہ

ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں تنازع کو کم کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان براہِ راست رابطے، تیسرے فریق کی ثالثی یا بین الاقوامی برادری کا مداخلت کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ طالبان مذاکراتی دعوے کر رہے ہیں، مگر بیان بازی اور دھمکیوں نے اعتماد کی فضا کو متاثر کیا ہے، اسی لیے صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے فوری سفارتی کوششیں ناگزیر ہیں

Comments are closed.