عدالتی اُمور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے اگر جارح ہو جائیں تو عوام ان کے ساتھ لڑائی نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رُکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جینس ادارے وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یہ اگر کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمے دار وزیرِ اعظم اور کابینہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سچ سب کو پتا ہوتا ہے لیکن بولتا کوئی نہیں اور جو بولتے ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ “میں عدلیہ کی آزادی چاہتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کرے۔”
چیف جسٹس نے کہا کہ پریشر دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، بیوروکریسی میں فون نہیں آجاتے یہ کر دو وہ کردو۔ کچھ لوگ فون پر کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے اور او ایس ڈی بن جاتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تو بہت سارے اختیارات موجود ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی کے لیے جب خفیہ اداروں سے رپورٹس منگواتے ہیں تو ایک طرح سے اُنہیں خود ہی مداخلت کا موقع دیتے ہیں۔ جب کیسز میں مانیٹرنگ جج لگوائے جائیں گے اور جے آئی ٹیز میں خفیہ اداروں کو شامل کیا جائے گا تو اُنہیں مداخلت کا موقع ملے گا۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایک جج کو پتا ہو کہ پورا ادارہ ساتھ کھڑا ہو گا وہ چیتے کی طرح کام کرے گا۔ مگر انسانی فطرت ہے کہ ہر جج اتنا دلیر نہیں ہوتا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس اور انٹیلی جینس بیورو کس قانون کے تحت بنی ہیں؟ ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کے ججز کے خطوط پڑھے اور تینوں کہہ رہے کہ مداخلت ہے۔ کیا کسی ایک ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی آپ یہ کیس نہ چلائیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہمیں عدالتی آرڈر کے ذریعے بینچ سے علیحدہ کیا گیا۔ دھرنا کیس میں پہلی بار میں نے لکھ کر دیا کہ جسٹس فیض حمید اس کے پیچھے ہیں۔ لیکن اس پر حکومت نے کیا کیا؟
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت سات مئی تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.