اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کے مقدمے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم اور وزیر مملکت زرتاج گل کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دیئے۔
اسلام آباد کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کے خلاف مقدمے کی سماعت عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی نے موقف اپنایا کہ وہ منتقلی کے دوران اور اس سے قبل جانوروں کی ہلاکت کے واقعے کی تمام ذمہ داری قبول کرتی ہیں، کابینہ ارکان کا اس کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ نے وائلڈ لائف بورڈ کی منظوری دی تھی اس لئے ذمہ دار بھی وہ ہیں، اس لئے تمام ذمہ داروں کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ شوکاز نوٹس نہ جاری کیے جائیں تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کریڈٹ لینے کی باری تھی تو سب چڑیا گھر کا دورہ کر رہے تھے، کچھ غلط ہوا تو سب نے لاتعلقی ظاہر کردی، انٹرنیشنل کنونشنز انسانیت اور جانوروں کے تحفظ کے لیے ہیں، 40 زرافے باہر سے منگوائے گئے اور وہ سارے کے سارے مر گئے، جانوروں کی امپورٹ پر پابندی ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کے کہنے پر 2015 کا نوٹیفکیشن اٹھاؤں اور وزیراعظم کو اس معاملے کا ذمہ دار قرار دے دوں؟ آپ تو بدقسمتی سے وزیراعظم کو بھی اس میں لانا چاہ رہے ہیں، وزیراعظم کو تو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ اس معاملے میں کیا ہوا۔
عدالت نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم، وزیرمملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور وفاقی سیکرٹری تبدیلی ناہید درانی کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیئے گئے، اسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کے ارکان کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرکے تمام فریقین سے 27 اگست تک جوابات طلب کر لیے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے واحد چڑیا گھر میں سہولیات کے فقدان پر جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، جانوروں کی منتقلی کے دوران بدانتظامی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے کئی جانوروں کی ہلاکت ہوئی۔
اناڑی عملے نے شیر اور شیرنی کو منتقل کرنے کے لئے ان کی کچھار میں آگ لگا دی اور ڈنڈے مارے جس کے باعث وہ جھلس گئے اور زخمی ہوئے اور منتقلی کے دوران شیر اور شیرنی ہلاک ہو گئے تھے۔
Comments are closed.