اسلام آباد: جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کی دو سال بعد ضمانت منظور کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ ایف آئی آر درج کرنے میں تین روز اور شکایت کنندہ کی جانب سے ضمنی بیان دینے میں تقریباً ایک ماہ کی تاخیر کی وضاحت نہیں کر سکا۔ عدالت کے مطابق اعجاز چوہدری کو ابتدائی طور پر 12 مئی 2023 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا تھا، بلکہ بعد ازاں 10 جون کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے مواد کی بنیاد پر ضمنی بیان میں شامل کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود الزامات کی سچائی کا تعین نہیں ہو سکا اور مقدمہ اب بھی “مزید تفتیش” کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالت نے قانونی اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی زیر حراست شخص کو سزا کے طور پر ضمانت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، خاص طور پر جب شریک ملزم امتیاز محمود کو پہلے ہی ضمانت دی جا چکی ہو۔
عدالت نے اعجاز چوہدری کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ایک بینچ نے سروس ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک خاتون فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی گریڈ 17 میں ترقی کے لیے محکمانہ کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر فیصلہ کرے۔
جسٹس منصور نے سات صفحات پر مشتمل فیصلے میں تحریر کیا کہ سول بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق بیوروکریسی کو ریاستی ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے، نہ کہ حکومت وقت کی ترجمان کے طور پر۔
یہ دونوں فیصلے عدالتی نظام میں شفافیت، بنیادی حقوق کی پاسداری اور سیاسی اثرات سے آزادی کے عکاس قرار دیے جا رہے ہیں۔
Comments are closed.