سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی 9 مئی کے واقعات سے متعلق آٹھ مقدمات میں ضمانت منظور کر لی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا۔
بنچ کی تبدیلی اور سماعت کا آغاز
سماعت چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور ایک دیگر رکن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔ کیس سننے والے بینچ میں تبدیلی بھی کی گئی، جس میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس حسن اظہر رضوی کو شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس کے دو اہم سوالات
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استغاثہ اور عمران خان کے وکیل سے دو سوالات کیے:
1. کیا ضمانت کیس میں عدالت حتمی فائنڈنگ دے سکتی ہے؟
2. ماضی میں سازش کے الزام پر ضمانت دی گئی، کیا اس کیس میں بھی یہی اصول لاگو ہوگا؟
استغاثہ اور عدالت کا مکالمہ
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے مؤقف اختیار کیا کہ ضمانت کیس میں عدالتی آبزرویشن ہمیشہ عبوری نوعیت کی ہوتی ہے اور اس سے ٹرائل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے 2014 اور اس سے قبل کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جن میں قرار دیا گیا کہ ضمانت میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کرتیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سازش کے مقدمات میں ضمانت نہ دینا مشکل ہوتا ہے، ماضی میں بھی ایسے مقدمات میں ضمانت دی گئی ہے۔ عدالت نے استغاثہ سے کہا کہ اگر کوئی ایسا کیس ہے جس میں سازش کے الزام پر ضمانت مسترد ہوئی ہو تو اس کا حوالہ دیا جائے۔
عمران خان کے وکیل کا مؤقف
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس سازش سے متعلق ضمانت کے تمام مقدمات کے فیصلے موجود ہیں، جن میں ضمانتیں منظور ہوئیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ کیس کے میرٹس پر بحث نہیں ہوگی، یہ ٹرائل کورٹ کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے عمران خان کی ضمانت منظور کر لی اور فریقین کو ایک بجے چیمبر میں طلب کر لیا۔
پس منظر
گزشتہ روز سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر کی طبیعت ناسازی کے باعث مؤخر کر دی گئی تھی، جس کے بعد آج عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا۔
Comments are closed.