ایران کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ، مسعود پزشکیان اور سعید جلیلی مدِ مقابل ہوں گے

ایران کے صدارتی امیدواروں نے ٹی وی مباحثے کے دوران ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے اور انتظامِ حکومت چلانے سے متعلق کوئی منصوبہ نہ ہونے کے الزامات عائد کیے۔

ایران کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ جمعے کو ہوگا جس میں اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان اور ایران کے جوہری مذاکرات کا حصہ رہنے والے سخت گیر مؤقف کے حامل سعید جلیلی مدِ مقابل ہوں گے۔

انتخابات سے قبل پیر کو دونوں امیدوار مقامی ٹی وی مباحثے میں آمنے سامنے آئے۔ یہ مباحثہ دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔

مسعود پزشکیان نے اپنے حریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ناتجربہ کار ہیں جنہوں نے کبھی کسی کمپنی کا انتظام بھی نہیں سنبھالا تو ایسا شخص کس طرح ملک چلائے گا۔

سعید جلیلی نے دفاع کرتے ہوئے اپنے کریئر اور کئی اہم پوزیشنوں پر کام کرنے کا ذکر کیا جس میں ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات بھی شامل تھے جس میں جلیلی نے ایران کی نمائندگی کی تھی۔

مسعود پزشکیان نے اپنے حریف سے سوال کیا کہ آپ کے پاس جوہری معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کیا منصوبہ ہے؟ جس پر سعید جلیلی نے کہا کہ وہ کوئی بھی معاہدہ بھرپور قوت کے ساتھ کریں گے۔ تاہم انہوں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

سعید جلیلی نے الزام عائد کیا کہ پزشکیان کے پاس ملک کا انتظام چلانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے، اگر وہ صدر بنے تو ملک کو پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔

جلیلی نے دعویٰ کیا کہ عوام کی حمایت سے ایران سالانہ معاشی ترقی کی شرح آٹھ فی صد حاصل کر لے گا۔

پزشکیان نے اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر جلیلی اس دعوے میں ناکام رہے تو حکام کو چاہیے کہ انہیں پھانسی پر چڑھا دیں۔

جلیلی نے کہا کہ اگر معیشت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ایران کو ایک متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔

انہوں نے امریکہ اور مغربی ملکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معاشی تعلقات ان ممالک کے ساتھ محدود نہیں ہونے چاہییں جن سے آپ کے تعلقات بہتر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو چاہیے کہ دنیا کے ان 200 ممالک کی طرف دیکھے جن سے خارجہ تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔

مسعود پزشکیان نے کہا کہ ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد دنیا کے ساتھ رابطوں پر مبنی ہو گی اور اس میں ایران سے پابندیاں اٹھانے کے لیے مذاکرات بھی شامل ہوں گے۔

دونوں امیدواروں نے ملک کے غریب عوام، ملازمین، خواتین، نسلی گروہ اور اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا اور عزم کیا کہ وہ ملک میں بہتر اور تیز انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

دونوں امیدواروں نے 28 جون کو صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

مزید خبروں کیلئے وزٹ کریں

Comments are closed.